1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چیک جمہوریہ کے حراستی مرکز میں مہاجرین کی بھوک ہڑتال

افسر اعوان11 نومبر 2015

چیک جمہوریہ میں قائم ایک حراستی مرکز میں موجود درجنوں مہاجرین نے انہیں وہاں لمبے عرصے سے رکھےجانے اور واپس ان کے ملکوں کو بھیجے جانے کی دھمکیوں کے خلاف بھوک ہڑتال کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1H47C
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Nemecek

چیک ری پبلک اپنی سرزمین کے راستے بڑے پیمانے پر مہاجرت سے بچا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وُسطیٰ میں جنگ اور غربت سے تنگ آ کر رواں برس یورپ کی طرف مہاجرت کرنے والے زیادہ تر افراد بلقان کے خطے سے آسٹریا اور جرمنی پہنچے ہیں۔

وہ لوگ جو چیک جمہوریہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور سیاسی پناہ کی درخواست نہیں دیتے انہیں حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اکثر کئی ہفتوں تک حراستی مراکز میں رکھا جاتا اور انہیں یورپی یونین کے ان ممالک میں واپس بھیجے جانے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دی ہوتی ہے یا جس ملک سے وہ چیک جمہوریہ میں داخل ہوئے ہوتے ہیں۔

چیک حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی مکمل طور پر یورپی معاہدوں کے عین مطابق ہے تاہم ایسے لوگوں کو حراست میں رکھے جانے کے دورانیے اور حراستی مراکز کی صورتحال پر انسانی حقوق پر نظر رکھنے والوں کی طرف سے تنقید شروع ہو چکی ہے۔

احتجاج منگل 10 نومبر کو ڈراہونیس میں قائم کیے گئے نئے حراستی مرکز میں شروع ہوا اور آج بدھ کے روز بھی جاری رہا۔ یہ مرکز دارالحکومت پراگ سے قریب 90 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔

اس سنٹر میں بطور رضاکار خدمات انجام دینے والی پیٹرا ڈامز نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بذریعہ ٹیلیفون بتایا، ’’منگل کی صبح 44 افراد نے بھوک ہڑتال شروع کی اور بعد از دوپہر یہ تعداد 60 سے بڑھ چکی تھی۔‘‘ اس رضاکار خاتون کا مزید کہنا تھا، ’’اس ہڑتال کی وجہ وہاں کی صورتحال نہیں بلکہ اس کی وجہ ان کو وہاں رکھے جانے کے عرصے کی طوالت ہے جس کی وجوہات سے بھی وہ ناواقف ہیں۔‘‘

چیک جمہوریہ میں رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران 7,201 مہاجرین کو حراست میں لیا گیا
چیک جمہوریہ میں رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران 7,201 مہاجرین کو حراست میں لیا گیاتصویر: picture alliance/dpa/P. Nemecek

ڈامز کے مطابق تناؤ اس کے بعد شروع ہوا جب 40 لوگوں کو رات کے وقت ڈراہونیس سے باہر منتقل کیا گیا، جس سے حراست میں موجود مہاجرین میں یہ خوف پیدا ہوا کہ انہیں ملک بدر کیا جا رہا ہے۔

چیک جمہوریہ کی وزارت داخلہ کی ایک خاتون ترجمان گیبریلا وانکووا کا کہنا تھا کہ حراستی مرکز سے مہاجرین کو ان ممالک لے جایا گیا ہے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی: ’’اس وجہ سے چند غیر ملکیوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ لوگوں کو ان ممالک واپس بھیجا جا رہا ہے جہاں سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

چیک جمہوریہ میں رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران 7,201 مہاجرین کو حراست میں لیا گیا۔ عام طور پر ایسے لوگوں کو 90 دنوں تک پابند رکھا جاتا ہے۔ وہاں سے رہائی پانے والے زیادہ تر مہاجرین نے جرمنی کا رُخ کیا۔