1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرون حملے میں ہلاکتوں کی تفتیش کر رہے ہیں، جرمنی

6 اکتوبر 2010

جرمن حکام نے کہا ہے کہ انہیں پاکستان میں ہلاک ہونےو الے پانچ جرمن شدت پسندوں کے بارے میں کسی طرح کی معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ شدت پسند پیر کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/PWA9
تصویر: Berliner Reichstag, Berlin, Deutschland

برلن میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کو خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’اس وقت ہمارے پاس کسی طرح کی معلومات نہیں، لیکن ہم تفتیش کر رہے ہیں۔‘

یہ ڈرون حملہ پیر کو افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہوا۔ اس علاقے کو القاعدہ اور طالبان سے وابستہ مقامی اور غیر ملکی شدت پسندوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس حملے میں ترک نژاد پانچ جرمن اور تین مقامی انتہاپسند مارے گئے۔ یہ حملہ امریکہ، برطانیہ، سویڈن اور جاپان کی جانب سے یورپ کے لئے ٹریول الرٹس کے اجراء کے بعد ہوا۔ ان ریاستوں نے یورپ کا سفر کرنے والے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

امریکی اور برطانوی ذرائع ابلاغ نے کہا تھا کہ القاعدہ نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں ممبئی طرز کے حملوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ معلومات افغان نژاد ایک جرمن شہری سے موصول ہوئیں، جسے یورپ آتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور اب وہ افغانستان میں زیر حراست ہے۔

Pakistan Landschaft in Waziristan Luftaufnahme
یہ ڈرون حملہ پیر کو شمالی وزیرستان میں ہواتصویر: Abdul Sabooh

قبل ازیں جرمنی نے یورپ میں دہشت گردی کے خطرے سے متعلق امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں مسترد کر دی تھیں۔ برلن حکام کا کہنا تھا کہ فی الحال جرمنی میں اسلامی انتہاپسندوں کی جانب سے حملوں کے ٹھوس شواہد دستیاب نہیں۔ جرمنی کے وزیر داخلہ تھوماس دے میزیئر نے جرمنی سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں دہشت گردانہ حملوں سے متعلق امریکی میڈیا کی رپورٹوں پر خبردار کرتے ہوئے کہا، ’کسی بھی صورت میں واویلا مچانے کی کوئی وجہ نہیں۔ ‘

دوسری جانب جرمنی میں آئینی تحفط کے وفاقی ادارے نے جون میں جاری کی گئی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ جرمنی میں 29 اسلامی انتہاپسند تنظیمیں موجود ہیں، اور 2009ء کے آخر تک ان کے ارکان کی تعداد 36 ہزار تھی، جس میں 2008ء کے مقابلے میں ڈیڑھ ہزار کا اضافہ ہوا۔

اس ادارے کے مطابق تقریباﹰ 200 جرمن یا جرمنی میں قیام پذیر غیرملکی شدت پسند عسکری تربیت کے حصول کے ارادے سے پاکستان میں وقت گزار چکے ہیں۔

خیال رہے کہ جرمنی نے 2003ء میں امریکی قیادت میں عراق پر حملے کی مخالفت کی تھی تاہم نیٹو کی قیادت میں جاری افغان مشن میں شریک ہے۔ وہاں اس کے چار ہزار 750 فوجی تعینات ہیں۔ برلن حکام دہشت گردانہ حملوں کے خطرے کے پیش نظر ملک میں سکیورٹی اور جاسوسی کے نظام کو سخت بنا چکے ہیں۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں