1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرون حملے: کس قسم کے طیاروں سے، کس طرح کئے جاتے ہیں

10 اگست 2009

پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں مبینہ امریکی ڈرون حملے گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈرون حملے کس قسم کے جہاز سے اور کس طرح کئے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/J78x
ڈرون حملے بغیر پائلٹ والے جہاز سے کئے جاتے ہیںتصویر: AP

پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں، خاص طور سے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں طالبان کے ٹھکانوں پر مبینہ ڈرون حملے اب کوئی نئی اور ڈھکی چھپی بات نہیں رہے۔ یہ ڈرون حملے خودکار طیاروں سے، جن میں کسی پائلٹ کی ضرورت نہیں ہوتی، کئے جاتے ہیں۔ ان ہوائی جہازوں کی دو اہم قسمیں ہیں، جن کو امریکی ایئر فورس نے MQ-1 Predator اور MQ-9 Reaper کے نام دیئے ہیں۔

پاکستان کی فضائی حدود میں ان طیاروں سے طالبان اور القاعدہ کے مشتبہ ٹھکانوں پر حملوں کے طریقہء کار کے بارے میں نامور تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ قبائلی افراد کے مطابق جب بھی ایک سفید اور ایک کالا طیارہ نظر آتا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب حملہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیاس ہے کہ یہ UAVs کی پرواز کے لئے افغانستان اور پاکستان کے علاوہ، خلیجی ریاستوں کے بھی فوجی ہوائی اڈوں استعمال کئے جاتے ہیں۔

UAV Unbemannte Aufklärungsdrohne der US Armee
القاعدہ اور ظالبان کے ٹھکانوں ہر ڈرون حملے سازگازتصویر: AP

امریکی فوج کے اِن UAVs یا بغیر پائلٹ کے اڑنے والے بمبار جہازوں کو فقط طیارے کہنا کافی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک پورے سسٹم کا نام ہے۔ اس سسٹم میں چار طیارے ہوتے ہیں، جن میں کیمرہ، ریڈیو سگنل، سیٹیلائٹ کنکشن اور دوسرے تکنیکی آلات کے ساتھ ساتھ دو ہیل فائر نامی میزائل بھی لگے ہوتے ہیں۔ UAVs کو جب کسی مشن پر بھیجا جاتا ہے، تو 90 سے زیادہ افراد امریکہ میں کسی خاص جگہ سے ان کو سیٹیلائٹ کے ذریعے چلاتے ہیں۔ جیسے ہی یہ UAVs کسی مطلوب یا مشتبہ دہشت گرد کی تصاویر اپنے مرکز کو بھیجتے ہیں، امریکہ محکمہء دفاع اس پر کارروائی کا حکم دے دیتا ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اِن طیاروں کا نشانہ نہیں چوکتا تو پھر بعض دفعہ معصوم شہری ان کا نشانہ کیسے بن جاتے ہیں؟ کیا اس سلسلے میں حساس اداروں کی طرف سے دی گئی اطلاعات بھی امریکہ میں موجود دفاعی ٹیم کو دی جاتی ہیں۔ رحیم اللہ یوسف زئی ان UAVs کو پروازوں کا خاکہ قبائلیوں کی زبانی بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنے مخبر شمالی علاقوں میں پھیلا دیئے ہیں۔ ان مخبروں کے پاس ڈیرھ انچ کی ایک CHIP ہوتی ہے، جس کو آن کیا جاسکتا ہے۔ امریکی مخبر مشببہ افراد کی کسی خاص جگہ موجودگی کی اطلاع پا کر اس CHIP کو آن کرکے وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طرح اس چھوٹی سی CHIP سے امریکی مرکز کو مشتبہ یا مطلوب دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع مل جاتی ہے، اور یوں قریب بیس منٹ کے وقفے میں اس جگہ پر ڈرون حملہ کیا جاتا ہے۔

دفاعی ماہرین کے مطابق، وجہ چاہے کچھ بھی ہو، ایک امر واضح ہے کہ ان ڈرون حملوں میں اگر ایک طرف القاعدہ کے رہنما نمبر تین رہنما ابو حمزہ رابعہ کو چار سال پہلے میران شاہ میں ہلاک کیا جا چکا ہے تو چند روز پہلے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی بھی ایسے ہی ایک حملے میں ہلاکت کا شبہ ہے۔ اس طرح پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجی اتارے بغیر امریکی محکمہء دفاع پاکستان میں ان ڈرون حملوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد لے رہا ہے۔

رپورٹ: انعام حسن

ادارت: امجد علی