1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرے سہمے سینکڑوں تعلیمی اداروں کو اب مقدمات کا بھی سامنا

دانش بابر، پشاور27 جنوری 2016

باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد صوبے خیبر پختون خوا کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ سکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث 683 تعلیمی اداروں کے سربراہان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Hkhj
Pakistan KPK Sicherheit Schulen Schüler Lehrer
صوبے خیبر پختون خوا کے ایک اسکول کا منظر، جسے دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایسے اسکولوں کی فُول پروف سکیورٹی ممکن بھی ہے؟تصویر: DW/D. Baber

پولیس انتظامیہ کے بقول صوبے کے بیشتر تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے مناسب انتظامات نہیں تھے، جس کی وجہ سے ان کے خلاف یہ اقدامات کیے گئے۔ جن اداروں کے سربراہان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے، اُن میں نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ بعض سرکاری تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں۔ عام لوگوں نے اس اقدام کو سراہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس قسم کی سختی اور فوری کارروائیوں سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ حفاظتی اقدامات کی طرف بہتر طور پر توجہ دینا شروع کرے گی۔

پشاور کے رہائشی وقاص خان کا بیٹا رنگ روڈ پر واقع ایک نجی سکول میں پڑھتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے سکول کی سکیورٹی سے مطمئن نہیں تھے:’’اکثر سکول کے مین گیٹ پر کوئی چوکیدار نہیں ہوتا تھا، اس بارے میں ہم انتظامیہ کو کئی مرتبہ کمپلینٹ بھی کر چکے تھے لیکن اس کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ حکومت کی طرف سے اس اقدام کے بعد اب یقینی طور پر سکیورٹی کے بہتر انتظامات کیے جائیں گے۔‘‘

وقاص خان کا خیال ہے کہ زیادہ تر نجی سکولوں میں سکیورٹی کی طرف خاص توجہ نہیں دی جاتی:’’صرف کیمرے اور خاردار تاروں سے بچے محفوظ نہیں ہو جاتے، اس کے لیے باقاعدہ سکیورٹی گارڈز کی ضرورت ہے۔‘‘

والدین کی شکایات اور باچاخان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد صوبے بھر کے تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیا۔ انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا ناصر خان درانی کے احکامات پر ناقص اور غیر تسلی بخش سکیورٹی انتظامات کی بناء پر 683 اداروں کے خلاف مختلف تھانوں میں ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے۔ ان اداروں میں 23 کالجز اور پشاور میں قائم ایک نجی یونیورسٹی بھی شامل ہے۔

ایک اعلیٰ پولیس اہلکار انسپکٹر عزیز خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے کی بہت ضرورت تھی کیونکہ تمام تعلیمی اداروں کو پہلے ہی سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں احکامات جاری کر دیے گئے تھے اور باقاعدہ طور پر رہنما اصول بھی فراہم کیے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے بہت سے اداروں نے ان گائیڈ لائنز کو نظرانداز کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے خلاف یہ ایکشن لیا گیا۔

وہ مزید کہتے ہیں:’’صوبے بھر میں مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جوکہ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا جائزہ لے رہی ہیں، ابتدائی طور پر ہم صرف اداروں کے مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کر رہے ہیں لیکن اگر مستقبل میں بھی سکیورٹی کے انتظامات بہتر نہ کیے گئے تو پھر ان اداروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔‘‘

Pakistan KPK Sicherheit Schulen
’صوبے بھر میں مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جوکہ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا جائزہ لے رہی ہیں‘تصویر: DW/D. Baber

وہ کہتے ہیں کہ تمام سکولوں اور خاص طور پر نجی سکولوں کو یہ ہدایت جاری کی گئی تھی کہ وہ دیواروں کی اونچائی، خاردار تار، باڑ، سکیورٹی کیمرے اور سکیورٹی اہلکاروں کی تقرری کو یقینی بنائیں لیکن بیشتر تعلیمی اداروں نے ان ہدایات پر عمل نہیں کیا گوکہ یہ ان کے اپنے ہی تخفظ کے لیے ہیں۔

پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر قائم ایک نجی سکول کے مالک نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ ایک طرف صوبائی حکومت پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں کم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اس قسم کے احکامات جاری ہو رہے ہیں، ان حالات میں پرائیویٹ سکول چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ہر شہری کے جان اور مال کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اس مد میں حکومت کو سنجیدگی سے مثبت اقدامات کرنے چاہییں نہ کہ تمام تر بوجھ عوام پر ہی ڈال دیا جائے۔‘‘

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس عباس مجید خان مروت کے مطابق ان سکولوں کے خلاف ایس وی ای پی ایکٹ مجریہ 2015ء کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پولیس کی اتنی نفری نہیں ہے کہ ہر سکول کو سکیورٹی فراہم کی جائے، لہٰذا تعلیمی اداروں کو یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ خود حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ وہ مزید کہتے ہیں:’’یہ فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے، اگر کوئی ادارہ اس پر عمل نہیں کرتا تو ہمارا اگلا قدم ان سکولوں اور کالجز کو سیل کرنے تک بھی جا سکتا ہے۔‘‘

Pakistan KPK Sicherheit Schulen
ایک والد کا شکوہ: ’اکثر سکول کے مین گیٹ پر کوئی چوکیدار نہیں ہوتا تھا، ہم انتظامیہ کو کئی مرتبہ کمپلینٹ بھی کر چکے تھے لیکن اس کا نوٹس نہیں لیا گیا‘تصویر: DW/D. Baber

وہ مزید کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کے خلاف اس قسم کی ایف آئی آرز اور مقدمے جاری رہیں گے، اس کے علاوہ پختونخوا پولیس نے گشتی دستے، اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ اور ایمرجنسی ریسپانس فورس کے دستوں کی مختلف پوائنٹس پر ڈیوٹیاں لگائی ہیں، جہاں سے وہ کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعے یا دہشت گردی کے کسی ممکنہ حملے کا مقابلہ کر سکتے ہیں تاہم پھر بھی تمام اداروں میں بنیادی سکیورٹی کو یقینی بنانا وہاں کی انتظامیہ کی اپنی ذمے داری ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید