1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک میں مہاجرین ذہنی مسائل کا شکار ہو گئے

عاطف بلوچ انفومائیگرنٹس
12 نومبر 2017

ڈنمارک کے ایک ڈی پورٹیشن سینٹر میں مقیم اٹھائیس ایرانی کرد مہاجرین وسط اکتوبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ وہ اس مہاجر سینٹر کی ابتر صورتحال اور اپنی پناہ کی درخواستوں پر جلد فیصلوں کی خاطر توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2nUJt
Dänemark Flüchtlinge in Thisted
تصویر: picture-alliance/epa/S. Gangsted

ڈنمارک کے Kærshovedgård نامی اس مہاجر مرکز میں مقیم ایرانی کرد مہاجرین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ سینٹر مارچ سن دو ہزار سولہ میں بنایا گیا تھا۔ دارالحکومت کوپن ہیگن کے مغرب میں تین سو کلومیٹر دور واقع اس ڈی پورٹیشن مرکز میں ایسے مہاجرین کو رکھا جاتا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس مرکز میں 180 مہاجرین کو رکھا گیا ہے۔

ڈنمارک: اس سال مزید مہاجرین کی گنجائش نہیں

مہاجرین کا بحران، یورپی سیاست کیا رنگ اختیار کر رہی ہے؟

مہاجرین کے بحران سے شینگن زون میں ہلچل

’مہاجر بچے کہاں سوتے ہیں‘

یہ وہ مہاجرین ہیں، جو بے وطن ہیں یا جن کے آبائی ممالک اور ڈنمارک کے مابین ملک بدری کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ ایران بھی ایک ایسا ملک ہے، جس کا ڈنمارک کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ایرانی کرد مہاجرین کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال کی وجہ توجہ حاصل کرنا ہے۔

ایک مہاجر نے انفومائیگرنٹس نامی ویب سائٹ کے ایک قریبی ذریعے کو بتایا، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں یہاں کتنی مدت رہنا پڑے گا۔ جب کسی کو سزا ملتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کب رہائی ملے گی لیکن ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے۔ ہم نے تو کوئی جرم بھی نہیں کیا، پھر بھی ہم یہاں قید میں ہیں۔‘‘

کوپن ہیگن میں ایک امدادی تنظیم نے بتایا ہے کہ گیارہ اکتوبر سے بھوک ہڑتال کرنے والوں میں سے کچھ مہاجرین کی حالت بگڑ گئی تھی، جنہیں طبی مدد دی گئی۔ یہ مہاجر پانی اور چینی پر گزارا کر رہے ہیں تاکہ زندہ رہ سکیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس کیمپ کی ابتر صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کئی ناقدین نے اس سینٹر کو جیل بھی قرار دیا ہے۔ آؤل بورگ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر مارٹین باک کے مطابق، ’’بھوک ہڑتال کرنے والے مجرم نہیں ہیں۔ وہ ایسے حالات میں رہ رہے ہیں، جن میں مجرم قیدیوں کو بھی نہیں رکھا جاتا۔‘‘

کئی ناقدین نے کہا ہے کہ ڈنمارک کی حکومت نے یہ مرکز اس لیے بنایا ہے تاکہ مہاجرین کی ملک میں آمد کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ آؤل بورگ یونیورسٹی کے شعبہ گلوبل ریفیوجی اسٹڈیز سے منسلک مارٹین لیمرگ پیڈریسن کا کہنا ہے، ’’اس سینٹر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہاں مہاجرین کے لیے ایسے ابتر حالات پیدا کر دیے جائیں تاکہ وہ رضا مندی سے ہی ڈنمارک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘

ڈنمار ک کے Kærshovedgård مہاجر سینٹر میں موجود مہاجرین کے لیے کسی مصروفیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ نہ تو انہیں زبان سکھائی جاتی ہے اور نہ ہی سماجی سطح پر ان کے کوئی رابطے بن سکے ہیں۔ پورا دن ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔

اگرچہ اس سینٹر سے باہر جانے والے مہاجرین کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے تاہم یہ شہری آبادی سے سات کلو میٹر دور ہے اور شہری علاقے میں جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس سینٹر میں رہائش پذیر مہاجرین سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں کچھ مہاجرین خود کشی کی کوشش بھی کر چکے ہیں۔