1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈینیز یوچیل کی گرفتاری اور ترک جرمن تعلقات

14 فروری 2018

ترکی میں مقید ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یوچیل کو پابند سلاسل ہوئے آج ایک برس بیت گیا ہے۔ اس موقع پر وفاقی جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے ایک مرتبہ پھر ترک حکام سے ان کی رہائی کا مطابہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2selG
تصویر: DW/B. J. Danisman

وفاقی جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے کہا ہے کہ ڈینیز یُوچیل کا ترکی میں ابھی تک حراست میں رکھا جانا پہلے کی طرح اب بھی ترک جرمن تعلقات میں بہتری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ برلن حکومت ابھی تک اس کوشش میں ہے کہ ترکی میں یُوچیل کے خلاف مقدمے کی منصفانہ سماعت قانون کے مطابق لیکن جلد از جلد ہونی چاہیے۔

’تنہائی بھی ایک قسم کا تشدد ہی ہے‘ اسیر صحافی ڈینیز یوچیل

Berlin Demonstranten fordern Frelassung von Deniz Yücel
تصویر: Imago/snapshot/K.M. Krause

 اپنی گرفتاری کا ایک سال پورا ہونے پر یوچیل نے اپنی ایک تحریر میں لکھا، ’’میں اس سے قبل ان لوگوں سے بات چیت کر چکا ہوں، جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہودیوں کے قتل عام یعنی ہولوکاسٹ کے متاثرین سے بھی۔ اب مجھے پتا چلا ہے کہ جب کوئی خود ریاستی جبر و ستم کا نشانہ بنتا ہے تو اس طرح کے واقعات مختلف انداز میں سمجھ آتے ہیں۔‘‘

یوچیل 1973ء میں جرمن شہر فرینکفرٹ کے قریب پیدا ہوئے تھے۔ ان کے پاس ترکی اور جرمنی دونوں ممالک کی شہریت ہے۔ وہ ترکی میں تعینات ایک جرمن روزنامے ’دی ویلٹ‘ کے لیےکام کرتے ہیں۔ انہیں ترک حکام نے 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت اور بعد میں کردوں کے خلاف سکیورٹی آپریشن سے متعلق ان کے ایک مضمون کے باعث مبینہ اشتعال انگیزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر ابھی تک باقاعدہ  فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔

ترکی میں آزاد صحافیوں کی کے پی 24 نامی ایک تنظیم کی مطابق تقریباً ڈیڑھ سو صحافی آج کل ترک جیلوں میں قید ہیں۔

ایردوآن کا میرکل پر ’ذاتی حملہ‘، ترک جرمن تنازعہ شدید تر