1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل، شیعہ مسجد پر خودکش حملہ، ایک درجن سے زائد ہلاکتیں

صائمہ حیدر
25 اگست 2017

افغان حکام کے مطابق دارالحکومت کابل میں واقع ایک شیعہ مسجد پر کیے گئے خود کش حملے میں کم از کم چودہ  عام شہری مارے گئے ہیں۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق چودہ شہریوں کے علاوہ دو پولیس اہلکاروں کی بھی موت واقع ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2iqOY
Afghanistan Anschlag auf Moschee in Herat
تصویر: Getty Images/AFP/H. Hashimi

 نیوز ایجنسیوں سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق خود کش حملہ آور نے مسجد کے دروازے پر بارودی جیکٹ اڑا دی جبکہ بقیہ حملہ آوروں نے مسلح افراد نے مسجد کے اندر داخل ہو کر فائرنگ کی۔ کابل پولیس کے ترجمان بشیر مجاہد نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ حملہ امام زمان مسجد میں ہوا۔

مسلمانوں کے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی اس مسجد پر حملے میں  سیکیورٹی گارڈ اور مسجد کے امام کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔ پبلک ہیلتھ کے محکمے کے مطابق دو نعشیں اور پندرہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچ دیا گیا ہے۔ بعض زخمیوں کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

اس سے قبل خبر رساں ادارے اے پی نے افغان پولیس اہلکار محمد جمیل کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا  کہ  حملے کے فوری بعد پولیس کو کابل کے شمالی حصے میں واقع  اس مسجد کے باہر تعینات کر دیا گیا تھا۔ جمیل کا کہنا تھا کہ جمعے کی نماز کے باعث مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی اور یہ کہ  مسجد کے اندر سے  فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔

Afghanistan Anschlag in Kabul
تصویر: Reuters/O. Sobhani

افغانستان میں شیعہ مذہبی رہنماؤں کی کونسل کے ایک رکن میر حسین ناصری نے اے پی کو بتایا کہ جمعے کی نماز کی امامت کرانے والے عالم دین موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے تاہم انہوں نے اُن کا نام بتانے سے گریز کیا۔ نصیری نے یہ بھی بتایا کہ مسلح افراد نے خواتین اور مردوں کے لیے مختص نماز کی جگہوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

مسجد پر حملے کی ذمہ داری جہادی گروپ داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی ہے۔

حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کی مسجدوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ افغانستان کے شہر ہرات میں واقع شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر ہونے والے خودکش حملے میں بتیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔

حالیہ کچھ عرصے کے دوران داعش افغانستان میں شیعوں کے خلاف متعدد حملے کر چکی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں کہ افغانستان کے صوبہ خراسان میں موجود داعش کے شام اور عراق میں موجود داعش کی اعلیٰ قیادت سے براہ راست رابطے موجود ہیں۔