1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں تازہ حملے، افغان جنگ سے متعلق عوامی تاثر کی عکاسی

15 ستمبر 2011

امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے سن 2006 میں لکھا تھا کہ امریکی فوج کی مرکزی کمان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ایسا انداز اپنانا چاہیے جو کئی پہلوؤں سے سود مند ثابت ہو سکے۔

https://p.dw.com/p/12ZUA
جنرل ڈیوڈ پیٹریاستصویر: AP

اس سے جنرل پیٹریاس کی مراد ایک ایسی حکمت عملی تھی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واقعات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو۔ ساتھ ہی اس کے ذریعے اس ملک کے عوام کو بھی مخاطب کیا جا سکے جہاں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جنگ لڑی جا رہی ہو۔

اس ہفتے کابل میں طالبان نے بیک وقت کئی اہم اہداف کو نشانہ بنایا جن میں امریکی سفارتخانے کی عمارت بھی شامل تھی اور امریکہ کی سربراہی میں کام کرنے والی نیٹو فوج کا ہیڈ کوارٹر بھی۔ افغانستان میں مسلح بغاوت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طالبان کے ان حملوں کی ایک خاص بات بھی تھی۔ ان حملوں کے ذریعے طالبان کا پلڑا ایک بار پھر بھاری ہو گیا۔ وہ افغانستان میں جنگ کی ایسی تصویر کشی کرنے میں کامیاب ہو گئے جیسی کہ افغان عوام کے ذہنوں میں بھی ہے۔

Afghanistan Kabul Taliban greifen Regierungsviertel an
تصویر: dapd

اس ہفتے کابل میں کیے جانے والے حملوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے بعد افغان صدر حامد کرزئی کے ایک سیاسی مخالف نے ایک بڑا اہم بیان بھی دے دیا۔ صدر کرزئی کے مخالف اس سیاستدان کے افغان جنگجوؤں کے ایک سرکردہ رہنما کے ساتھ بھی قریبی رابطے ہیں۔ کرزئی کے حریف اس سیاستدان نے کہا کہ طالبان افغان سکیورٹی دستوں کی طرف سے حمایت کے بغیر ایسے حملے کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اس بیان کو طالبان کے حق میں صرف سود مند ہی کہا جا سکتا ہے۔

Symbolbild Karzai betroffen
افغان صدر حامد کرزئیتصویر: picture alliance/dpa

اس لیے کہ اس طرح کے بیانات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں جاری جنگ میں افغان دستوں اور نیٹو کو فوجی نقصان تو ہو رہا ہے لیکن ایسے حالات کا حامد کرزئی، امریکہ اور نیٹو کو سیاسی اور عسکری نقصان بھی ہو رہا ہے۔ یوں افغان جنگ سے متعلق اس عوامی سوچ کو تقویت ملتی ہے کہ طالبان کا پلڑا بھاری ہے اور اس جنگ کو وہی کنٹرول کر رہے ہیں۔

یہ وہ بات ہے جو جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے سن 2006 میں لکھی تھی۔ ان کے مطابق اس کا سدباب اسی وقت کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا بظاہر نہ ہو سکا۔ اب اس کا فائدہ طالبان عسکریت پسندوں کو پہنچ رہا ہے۔ اس لیے کئی ماہرین کی نظر میں کابل میں تازہ ترین حملے دو حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کابل میں گزشتہ تین ماہ کے دوران طالبان تین مرتبہ ایسے کامیاب حملے کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ حملے اس عوامی تاثر کو بھی مضبوط بناتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کو طالبان کنٹرول کر رہے ہیں۔

رپورٹ:عصمت جبیں

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں