1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں داعش امریکی اور افغان فورسز کی ’ناک کے عین نیچے‘

10 جنوری 2018

تجزیہ کاروں کے مطابق مڈل کلاس افغان شہری داعش کو دور دراز کے دیہات سے نکال کر ملکی دارالحکومت کابل تک میں لے آئے ہیں۔ اس طرح دارالحکومت کابل اب ممکنہ طور پر افغانستان کا سب سے پرتشدد شہر بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2qd1u
Afghanistan - Selbstmordanschlag in Kabul
تصویر: Reuters/O. Sobhani

گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران دارالحکومت کابل میں تقریباﹰ بیس مسلح حملوں کی ذمہ داری جہادی تنظیم داعش قبول کر چکی ہے۔ یہ تمام حملے طالب علموں، پروفیسروں اور ایسے دکانداروں کی مدد سے کیے گئے، جو امریکی  اور افغان اہلکاروں کے قائم کردہ سکیورٹی حصار کو توڑنے میں کامیاب رہے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دارالحکومت کابل کے لیے یہ صورتحال اس لیے بہت تشویش ناک ہے کیوں کہ وہاں تو سکیورٹی اہلکار بہت بڑی تعداد میں تعینات ہیں۔

واشنگٹن میں وُڈرو ولسن سینٹر کے ماہر تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے، ’’یہ کوئی ایسا گروپ نہیں ہے، جو مشرقی افغانستان کے کسی گاؤں میں ہے۔ یہ بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے اور افغان دارالحکومت میں بڑے حملے کر رہا ہے۔ یہی تو تشویش کی بات ہے۔‘‘

Afghanistan Anschlag in Kabul
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

کیا افغانستان کو سی پیک میں شامل کیا جا سکتا ہے؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کے لیے نئی بھرتیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ داعش افغانستان میں مڈل کلاس کے ایسے انتہاپسندوں کو بھرتی کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے، جو کئی عشروں سے ملک کے سماجی اقتصادی گروپوں کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں میں انٹرنیٹ بھی داعش کی طرف سے نئی بھرتیوں کے لیے ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے سینئر تجزیہ کار برہان عثمان کا کہنا ہے، ’’ہم اب ایک ایسی نسل کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو تشدد کی مختلف اقسام اور پرتشدد انتہاپسندی کے حوالے سے بے حس ہو چکی ہے۔‘‘

برہان عثمان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ بات حیران کن نہیں ہونا چاہیے کہ جہاد کے نظریے سے متاثرہ نسل اب جہاد کے اس نظریے کو اپنا رہی ہے، جو پہلے سے بھی زیادہ پرتشدد ہے۔‘‘ عثمان کے مطابق کابل میں داعش کے سیل بن چکے ہیں اور ان کے اراکین سب کے سامنے ہونے کے باوجود چھپے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں کے ہمراہ رہتے ہیں، روزانہ اپنی ملازمتوں پر یا پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی جاتے ہیں۔

کیا طالبان کے خلاف جنگ صرف فضائی بمباری سے جیتی جائے گی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق شہر کی گلیوں اور سڑکوں سے اچھی طرح واقف داعش کے یہ اراکین رات کو ملتے ہیں اور نئے اہداف کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق اگر سکیورٹی میں اضافہ بھی کر دیا جائے تو یہ شدت پسند اپنے ارادوں میں فوری تبدیلیاں لانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ایک مغربی سفارتکار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک ایسا ڈھانچہ ہے، جو نئے اقدامات کی صورت میں اپنے ردعمل میں فوری مطابقت پیدا کر لیتا ہے۔ گزشتہ برس مئی سے دسمبر تک ہر مرتبہ نئے انداز میں حملے کیے گئے۔‘‘

ایک افغان سکیورٹی عہدیدار کا اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’کابل میں داعش کے بیس سے زائد سیل کام کر رہے ہیں۔‘‘ عثمان کے مطابق یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے کہ مجموعی طور پر کابل میں داعش کے کتنے ارکان موجود ہیں لیکن یہ مڈل کلاس خاندانوں میں بھی ہیں، تعلیم کے شعبے میں بھی اور دفاتر میں بھی۔

اس افغان سکیورٹی عہدیدار کا مزید کہنا تھا، ’’انتہا پسندی کی نئی لہر میں ان پڑھ اور دیہاتی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد ملوث ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق اب تک یہ واضح ہو چکا ہے کہ اس گروپ کا بنیادی مقصد افغانستان میں بھی عراق اور شام کی طرح شیعہ سنی تفریق پیدا کرنا ہے۔ امریکا کے بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے سینئر فیلو وانڈا فیلباب براؤن کا کہنا ہے، ’’اصل گیم یہ ہے کہ سُنیوں میں شیعہ آبادی کے خلاف نفرت کو ہوا دی جائے۔‘‘