1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کابل ٹیکسی‘ افغان خفیہ ادارے کے لیے نیا دردِ سر

عاطف توقیر15 ستمبر 2015

افغانستان میں طنز کے نشتر برسانے والے ایک فیس بک صفحے نے ان دنوں دھوم مچا رکھی ہے۔ ’کابل ٹیکسی‘ نامی اس پیج کو افغان خفیہ سروس ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GWfb
Syrien Idlib - Islamisten rücken in die nordsyrische Stadt ein
تصویر: Reuters/K. Ashawi

اس فیس بک پیج پر حکومتی عہدیداروں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے اور ان کی کارکردگی پر طنز بھی کیا جاتا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک نامعلوم صارف نے رواں برس اپریل میں یہ صفحہ تخلیق کیا تھا، تاہم اس صفے کے خلاف کریک ڈاؤن سے یہ کم معروف پیج ہر طرف توجہ کا مرکز بن گیا۔

افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے گزشتہ برس متعدد صحافیوں سے ’کابل ٹیکسی‘ چلانے کے الزام میں پوچھ گچھ کی تھی اور اس طنزیہ صفحے کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کے جواب میں عوامی سطح پر شدید تنقید سامنے آئی اور انٹرنیٹ پر ’آئی ایم کابل ٹیکسی‘ جیسے ناموں سے دیگر صفحات تخلیق کر دیے گئے۔

اپریل میں یہ صفحہ تخلیق کیا گیا تھا، تو اس میں ایک پیلی ٹویوٹا ٹیکسی دکھائی گئی تھی، جس کے پچھلے شیشے پر درج تھا، ’زندگی کڑوی اور مستقبل غیر یقینی ہے‘۔

اس صفحے میں افغانستان میں پھیلی بدعنوانی اور بری حکمرانی کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا۔

اس صفحے میں ٹیکسی پر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور سیاست دانوں بشمول صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھیوں کے، مسافروں کی شکل میں بٹھا کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس صفحے کے خلاف کریک ڈاؤن اس وقت شروع ہوا، جب صفحے پر صدر غنی کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کو ہدف بنایا گیا۔

اتمر کے حوالے سے پوسٹ میں حنیف اتمر اور ان کے 27 بچوں کو دکھایا گیا تھا، جو اتمر کے بڑی تعداد میں مشیروں کی نشان دہی کر رہے تھے۔ اتمر کے ان مشیروں کی تنخواہیں انتہائی زیادہ ہیں اور اس صفحے میں انہیں ایک بڑے بوجھ کی صورت میں دکھایا گیا تھا۔

اتمر اس پوسٹ سے خوش نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے ایسے صحافیوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی، جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر ’کابل ٹیکسی‘ کے پیچھے ہیں۔ اتمر کے مطابق ان کے مشیروں کے نام ظاہر کر کے اہم ملکی راز افشا کر دیے گئے ہیں۔

افغان میڈیا پر’کابل ٹیکسی‘ کے حامیوں کے مطابق اتمر کا یہ الزام اس لیے غلط ہے کیوں کہ ان کے مشیروں کے نام حکومت پہلے ہی تصاویر کے ساتھ اپنے فیس بک صفحے پر جاری کر چکی ہے۔