1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کامن ویلتھ گیمز کے لئے قریشی کو کرشنا کی دعوت

29 ستمبر 2010

بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ایس ایم کرشنا کا کہنا ہے کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کے مابین امن مذاکرات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/PPhD
شاہ محمود قریشی کامن ویلتھ گیمز میں مدعوتصویر: picture-alliance/dpa

بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ایس ایم کرشنا کا کہنا ہے کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کے مابین امن مذاکرات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں۔ بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں کرشنا نے کہا، ’ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہم تہہ دل سے مدعو کرتے ہیں کہ وہ اتوار سے شروع ہونے والے دولت مشترکہ کھیلوں کے لئے بھارت آئیں اور کم از کم چند کھیل دیکھیں، اس طرح ہمیں ایک بار پھر مکالمت کو آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا‘۔

Der indische Außenminister S. M. Krishna
کامن ویلتھ گیمز کے موقوع پر پاک بھارت مذاکرات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں: بھارتی وزیر خارجہتصویر: UNI

جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتیں، بھارت اور پاکستان ایک عرصے سے دو طرفہ اعتماد سازی اور امن مذاکرات کو بروئے کار لاکر دیرینہ تنازعات کو ختم کرنے کی کو ششیں کر رہی ہیں۔ 2008 میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، جس میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے ، امن مذاکرات کے عمل کو کافی نقصان پہنچا۔ 2008 کے نومبر میں رونما ہونے والے افسوس ناک واقعات کے ایک طویل عرصے تک پاک بھارت جامع مذاکرات کا سلسلہ بند رہا تاہم دونوں ملکوں کی طرف سے سفارتی سطح پر رہ رہ کر امن کی بحالی کی اہمیت پر بیان اور جوابی بیان کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ کامن ویلتھ گیمز کا انعقاد بھارت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔ ایک طرف تو اُسے دنیا پر یہ ثابت کرنا ہے کہ بھارت ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی جنوبی ایشیائی قوت ہے جہاں مغربی طاقتیں سرمایہ کاری اور دفاعی تعاون جیسے شعبوں میں بلا جھجک پیش قدمی کر سکتی ہیں، تو دوسری جانب بھارت کو جنوبی ایشیائی خطے میں اپنے اہم کردار کو اجاگر کرنے کے لئے تمام تر کوششیں کرنا ہوں گی کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ نہایت دوستانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔

Indien Commonwealth Games Flash-Galerie
کامن ویلتھ گیمز بھارت کے لئے ایک بڑا چیلنجتصویر: AP

گزشتہ چند سالوں کے دوران بھارت میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی تعداد دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی ہے۔ ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندانہ حملوں کا شکار ہونے والے ممالک کی فہرست میں عراق کے بعد بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم ان تمام حملوں میں سے کوئی ایک بھی اب تک مشکل ترین ہدف پر نہیں کیا گیا۔ 2001 میں مسلح افراد نے بھارتی پارلیمان پر حملہ کیا تھا۔ ابھی ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے سیاحوں کی ایک بس پر اچانک حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو تائیوانی باشندے زخمی ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ 16 میلن کی آبادی والے اس شہر میں کامن ویلتھ گیمز کے دوران امن عامہ کی صورتحال پر قابو رکھنا سکیورٹی فورسز کے لئے کتنا بڑا چیلنج ہوگا۔

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے بقول ’ بھارت ایک خطرناک اور غیر محفوظ ہمسائے سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت کے بازاروں، کیفیز، شاپنگ سنٹرز پر ہونے والے حملے ایسے مشتبہ ملکی دہشت گردوں نے کئے ہیں جو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان سے بھارت لوٹے ہیں‘۔

Straßenverkehr Chaos in Indien
نئی دہلی کی سڑکوں پر معمول کا ٹریفکتصویر: AP

ایف ٹی آئی انٹر نیشنل رسک لمیٹڈ کے چیئرمین اسٹیون ویکرز نے متنبہ کیا ہے کہ کامن ویلتھ گیمز کے موقع پر ماضی میں نئی دہلی کی پارلیمان پر ہونے والے حملے جیسی دہشت گردانہ کارروائی کو خارج الامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اُن کے بقول’ سب سے زیادہ خطرہ ہوٹلوں اور بسوں پر حملوں کا ہے‘۔ ویکرز کے مطابق مُمبئی دہشت گردانہ حملے جیسی کوئی بھی کارروائی بھارت کو اس حد تک مشتعل کر سکتی ہے کہ نئی دہلی جواب میں پاکستان کے خلاف عسکری حملہ کر دے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں چوٹی کے بھارتی سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ 2009 میں بیرونی عوامل کی پشت پناہی سے کئے جانے والے 12 دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ اُدھر نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’ انسٹیٹیوٹ فار کونفلکٹ مینیجمنٹ‘ کے سربراہ ’ اجائی ساہنی‘ نے کہا ہے کہ کامن ویلتھ گیمز دہشت گردوں کے لئے ایک پُر کشش مگر مشکل ہدف ہوگا‘۔ ایسے عناصر کی کارروائیوں کا جواب بھارت ماضی میں بھی بہت سختی سے دے چکا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں