1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگو: مہاجرین نے یو این کے یرغمالی ارکان کو رہا کر دیا

صائمہ حیدر
19 اپریل 2017

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ مشرقی کانگو میں غیر مسلح جنوبی سوڈانی پناہ گزینوں نے یرغمال بنائے گئے یو این کے عملے کے سولہ ارکان کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے رہا کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2bTvq
Kongo UN Friedensmission in Munigi
اقوامِ متحدہ کے مطابق کیمپ میں حالات معمول پر ہیں اور کیوو کی مونیگی بیس پر قائم یہ کیمپ امن فوج کے مکمل کنٹرول میں ہےتصویر: Getty Images/AFP/P. Moore

اقوامِ متحدہ کے عملے کے ارکان کو گزشتہ روز مشرقی کانگو میں  یونائیٹڈ نیشنز کے قائم کردہ ایک مہاجر کیمپ میں یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ افراد اس کیمپ سے کسی تیسرے ملک میں اپنی منتقلی کا مطالبہ کر رہے تھے تاہم اقوامِ متحدہ کے لیے کسی ایسے تیسرے ملک کی تلاش کرنا مشکل تھا جو اِن مہاجرین کو قبول کرنے پر تیار ہو۔

 نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں قائم شعبہ امن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کیمپ میں حالات معمول پر آ گئے  ہیں اور کانگو کے صوبے کیوو کی مونیگی بیس پر قائم یہ کیمپ امن فوج کے مکمل کنٹرول میں ہے۔

 اس سے قبل کانگو میں اقوامِ متحدہ کے مشن نے کہا تھا کہ جنوبی سوڈان کے مہاجرین نے عملے کے 13 ارکان کو یرغمال بنا لیا ہے اور اُن کا مطالبہ ہے کہ اُنہیں جنوبی سوڈان میں جبری واپسی سے بچانےکے لیے کسی تیسرے مشرقی افریقی ملک منتقل کر دیا جائے۔ تاہم بعد ازاں اقوامِ متحدہ کے شعبہ امن کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اراکان کی تعداد سولہ بتائی گئی تھی۔

 یواین ’پِیس کیپنگ ڈیپارٹمنٹ‘ کے بیان کے مطابق،’’ عملے کے تمام ارکان بحفاظت اپنے گھروں کو جا چکے ہیں اور کسی قسم کے جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ مشن اس واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔''

Südafrika - Lindela Repatriation Center
تصویر: GIANLUIGI GUERCIA/AFP/Getty Images

 ان پناہ گزینوں میں وہ 530 افراد بھی شامل ہیں جو گزشتہ سال جنوبی سوڈان سے فرار ہو کر صوبائی دارالحکومت گوما کے شمال میں مونیگی کے علاقے میں قائم اقوام متحدہ کے مہاجر کیمپ میں پہنچے تھے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔ یرغمال بنانے کا واقعہ ریک مچار کی سوڈانی پیپلز لبریشن کے آٹھ جنگجوؤں کی جنوبی سوڈان جبری واپسی کے تناظر میں پیش آیا۔ یہ جنگجو بطور پناہ گزین کیمپ میں رہ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ جنوبی سوڈان میں جاری تنازعے کے دونوں فریقوں صدر سلواکیر اور سابق نائب صدر ریک مچار نے گزشتہ برس اپریل میں ایک اتحادی حکومت تشکیل دی تھی اور مچار کو ملک کے نائب صدر کے طور پر بحال کر دیا گیا تھا۔ تاہم جولائی میں لڑائی دوبارہ شروع ہونے کے بعد مچار کو فوری طور پر سوڈان فرار ہونا پڑا۔  سن دو ہزار تیرہ میں ان دونوں رہنماؤں کے درمیان شروع ہونے والی اقتدار کی جنگ ایک مسلح تنازعے میں تبدیل ہو گئی تھی۔ تب سے اس لڑائی میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔