1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا مطلوب ملزم تھائی لینڈ سے گرفتار

3 دسمبر 2016

کراچی میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ایک مطلوب ملزم کو تھائی لینڈ کے ریڈ لائٹ ایریا سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ چار برس قبل کراچی کی ایک فیکڑی میں لگنے والی آگ سے دو سو پچپن افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/2Tg36
Fabrikbrände in Pakistan
تصویر: Getty Images

تھائی لینڈ پولیس کے مطابق انہوں نے کراچی فیکڑی میں آگ لگانے کے جرم میں ملوث ایک مشتبہ پاکستانی کو گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم کا نام عبدالرحمان ہے اور اس کی عمر چھیالیس برس بتائی گئی ہے۔ تھائی لینڈ انٹرپول کے سربراہ میجر جنرل ایپیچارت سورابایا کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملزم کو جمعے کی شام  بنکاک میں واقع ریڈ لائٹ ایریا کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا، ’’تھائی انٹرپول نے مشتبہ شخص کو تلاش کرنے کا عمل پاکستانی حکام کی طرف سے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے بعد شروع کیا تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا جتنی جلدی پاکستان چاہے گا ملزم کو اس کے آبائی ملک کے حوالے کر دیا جائے گا۔

Pakistan Karachi Textilfabrik Brand Feuer
تصویر: picture-alliance/dpa

تھائی لینڈ پولیس کے مطابق ملزم عبدالرحمان اس گینگ کا رکن بتایا جاتا ہے، جس پر کراچی کی ایک گارمنٹ فیکڑی میں آگ لگانے کا شبہ ہے۔ مبینہ طور پر اس گینگ نے اس وقت فیکڑی میں آگ لگا دی تھی، جب فیکڑی کے مالک نے اس گینگ کو تقریباﹰ دو لاکھ ڈالر بھتہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

سن دو ہزار بارہ میں علی انٹرپرائزز فیکڑی میں لگنے والی آگ پاکستان میں پیش آنے والے بدترین صنعتی حادثات میں سے ایک تھی۔ ایک عدالتی تحقیقی رپورٹ کے مطابق فیکڑی میں  ہنگامی راستوں کی کمی تھی جبکہ کارکنوں کو حفاظتی ٹریننگ بھی مناسب طریقے سے فراہم نہیں کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں کام کے حالات پر نظر رکھنے والے حکومتی انسپکٹرز کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ خیال کیا گیا تھا کہ آگ حادثاتی طور پر لگی تھی۔

فیکڑی مالک کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن اس کیس کی سماعت آج تک نہیں ہوئی۔ رواں برس کے آغاز پر کراچی پولیس کا کہنا تھا فیکڑی میں آگ ایک گینگ کی طرف سے لگائی گئی تھی اور اس آگ لگانے والے ملزم کا نام عبدالرحمان بتایا گیا تھا۔

اس فیکڑی میں خاص طور پر جرمن کاروباری ادارے ’کِک‘ کے لیے ملبوسات تیار کیے جاتے تھے۔ یہ جرمن ادارہ متاثرہ خاندانوں کو تقریباﹰ  دو ملین ڈالر کا زر تلافی ادا کر چکا ہے۔