1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں ایف ڈبلیو او اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج

بینش جاوید
17 اکتوبر 2019

خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے تین ٹرک ڈرائیوروں کی ہلاکت کے بعد پولیس نے ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے تاہم فی الحال کسی گرفتاری کی اطلاع نہیں۔

https://p.dw.com/p/3RRQ4
Pakistan LKW-Fahrer
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Gulfam

پولیس نے ایف آئی آر پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ  کے  احتجاج کے بعد  ٹرانسپورٹ یونین کے سربراہ شیر ایوب وزیر کی مدعیت میں درج کی۔ پشتون تحفظ مومنٹ کے کارکنوں اور رہنماؤں نے واقعے کی سخت مذمت کی تھی۔

فرنٹیئر ورکس آرگینائیزیشن (ایف ڈبلیو او) پاکستانی فوج کا ذیلی ادارہ ہے جس کے پاس ملک بھر کے اہم تعمیراتی ٹھیکے ہوتے ہیں۔  فوجی انجینیئرنگ کا یہ ادارہ پانچ دہائیوں سے ملک میں روڈ، پُل اور سُرنگیں بنانے کا کام کرتا آیا ہے۔

کراچی سے کچھ صحافیوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعہ میں لسانی کشیدگی کے خدشے اور ایک فوجی ادارے کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے باعث میڈیا سے کہا جا رہا ہے کہ اس واقعہ کو زیادہ نہ اُچھالا جائے۔

اس واقعے پر ایف ڈبلیو او کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی گرفتاری کی تصدیق ہو سکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز نیشنل ہائی وے سے سپر ہائی وے جانے والےکئی ٹرک ڈرائیوروں کو کراچی کے قریبی علاقے کاٹھور میں ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے  اس لیے روکا کیوں کہ ان کے ٹرکوں کا وزن اس سڑک پر سفر کرنے کے لیے متیعن وزن سے زیادہ تھا۔ حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ جاری کیا تھا جس میں پابندی عائد کی گئی تھی کہ ہائی وے پر سفر کرنے والے ٹرکوں پر ایک حد تک ہی وزن لادا جاسکتا ہے۔

حکام کے مطابق ایف ڈبلیو او کے اہلکار اس فیصلے پر عمل در آمد کروانا چاہ رہے تھے جب وہاں صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہاں احتجاج شروع ہو گیا اور ایسے میں ایف ڈبلیو اہلکاروں پر پتھراؤ بھی ہوا۔ معاملہ شدت اختیار کر گیا اور اہلکاروں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی گئی۔

اس واقعہ کو رپورٹ کرنے والے ایک صحافی نے بتایا کہ،'' جب ہم اس مقام پر پہنچے تو کچھ افراد کا کہنا تھا کہ ٹرک ڈرائیوروں کے پاس بھی ہتھیار تھے اور جب  ان کو روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے ٹول ٹیکس دیے بغیر کاٹھور سے گزرنے کی کوشش کی جو جھگڑے کا سبب بنا۔‘‘

لیکن صحافی کے مطابق ایک ٹرک کنڈکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف ڈبلیو او کے اہلکار انہیں تنگ کر رہے تھے اور پیسوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں پاکستان مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال  نے کہا کہ فوجی سربراہ کو فوری طور اس واقعہ کی تحقیقات کرنا چاہیے۔

لیکن صحافی امبر شمسی نے ٹوئٹر پر خدشہ ظاہر کیا کہ،'' افسوس ! ذمہ داران کو سزا نہیں ملے گی۔‘‘

انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر نے ٹویٹ کی،'' پولیس کا کہنا ہے کہ ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی لیکن ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی کمر اور سینے پر گولیاں ماری گئیں۔ ان اہلکاروں کو مثالی سزا دی جانی چاہیے۔ ان میں یہ ہمت کیسے ہوئی کہ انہوں نے عام شہریوں پر اپنی گنیں تانیں۔‘‘