1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کا امن: حکومتی کوششیں جاری

رفعت سعید،کراچی15 مئی 2014

وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے کراچی کے حالات پر جو بدھ کے روز اجلاس طلب کیا تھا، اس میں ایک خاص شخصیت کی موجودگی نے کئی باتوں کے مطلب کو بدل ڈالا۔ وہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں۔

https://p.dw.com/p/1C0f1
تصویر: AFP/Getty Images

کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے حیدر رضوی کا کہنا ہے کہ جس طرح پاکستان کی مسلح افواج، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت نے کراچی کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور یہ کہ اس سے بڑا کوئی فورم ہو نہیں سکتا تو یہ واضع ہے کہ کراچی ہی پاکستان کا دل ہے۔


پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسئلے کو پولیس ہی حل کرسکتی ہے اور فوج کی دخل اندازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے شائد اسی بات کا جواب کچھ یوں دیا کہ پولیس کے مسائل کو حکومت حل کرے۔ اور یوں گویا بال پھر سیاسی حکومت کے کورٹ میں ڈال دی۔

Pakistan Demonstration gegen Taliban in Karachi
کراچی میں طالبان اور پرتشدد واقعات کے خلاف مظاہروں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مگر جس بات پر سب نے اطمنان کا اظہار کیا وہ یہ تھی کہ وہ کمیٹی جس کا عندیہ پہلے وزیرِ اعظم نے دیا تھا وہ قائم کردی گئی اور اس میں تمام مفادات کو نمائندگی دےدی گئی۔ کمیٹی میں ابتدائی طور پر ڈی جی رینجرز، ایڈیشنل آئی جی کراچی، گورنر اور وزیر اعلٰی شامل ہیں۔ تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں جس طرح کی کمیٹی وزیر اعظم نے قائم کی ہے اسکا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو اس کمیٹی میں صرف حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ ہیں۔ دو آپریشن کا حکم دینے والے ہیں اور دو آپریشن کرنے والے یہ چاروں نہ تو آزاد ہیں اور نہ غیر جانبدار۔ کمیٹی کا فائدہ اس وقت ہوگا جب اس میں غیر سیاسی افراد کو شامل کیا جائے۔

اجلاس میں شہر میں امن و امان کی صورت حال پر بریفنگ کے دوران پولیس اور رینجرز کے سربراہوں نے واضح طور پر کہا کہ گذشتہ برس ستمبر میں شروع ہونے والے آپریشن کے ابتدائی پانچ ماہ تک سیاسی جماعتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تھیں لیکن گذشتہ تین ماہ میں انتظامی رکاوٹیں آڑے آرہی ہیں اور سیاسی جماعتوں نے بھی جرائم پیشہ افراد کے لیے آوازیں اٹھانا شروع کردی ہیں۔


قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تحفظا ت پر وزیر اعظم بولے کے کسی سیاسی دباو پر خاطر میں نہ لائیں اور صرف قیام امن پر توجہ مرکوز رکھیں۔ مگر انسانی حقوق کا ضرور خیال رکھیں۔ وزیر اعظم نے واضح کردیا کہ کراچی میں اندھدروں اور شٹر ڈاون نہیں اجالے دیکھنا چاھتے ہیں اور اس مقصد ہر کسی سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔

Pakistan Bus Anschlag Selbstmordanschlag Terror Karachi
کراچی کو دہشت گردی سمیت کئی قسم کے پرتشدد واقعات کا سامنا ہےتصویر: Reuters


سیاسی جماعتوں کو اظہار رائے کا موقع ملا تو پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف زرداری مکمل تعاون کا یقین دلایا اور وزیر اعظم کی طرح قیام امن کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر جماعت اسلامی کے امیر کراچی حافظ نعیم الرحمان نے اپنا موقف کھل کر بیان کیا کہ جب تک ڈاکٹر عشرت العباد خان گورنر سندھ ہیں کراچی میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔


ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی نے تین مسائل کی نشاندہی کی۔ انکا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے کارنوں کے ماورائے عدالت کا قتل اور لاپتہ کارکنان کی بازیابی ،الطاف حسین کو شناختی کارڈ کا اجرا ، اور کراچی میں ترقیاتی کام ان کے خیال میں اہم مسائل ہیں۔


اجلاس سے فارغ ہوکر جب وزیرِ اعظم اسلام آباد پہنچے تو کابینہ کے اجلاس میں جہاں دوسری باتوں پر غور کیا گیا، وہیں کراچی کے معاملات کا بھی ذکر ہوا۔ لیکن عام شہریوں کی آرا میں کچھ بھی ہو شہر میں امن بحال ہونا چاہیے۔ ٹارگیٹ کلنگ کا جن کسی بھی طرح بوتل میں بند ہو، بھتہ خوری کی آسیب کو کوئی بھگائے، دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی کیا جائے ان اجلاسوں کا فائدہ سڑک پر ہی دیکھنا پڑے گا۔