1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرغزستان میں عام الیکشن، مخلوط حکومت کا امکان

11 اکتوبر 2010

غیر حتمی نتائج کے مطابق کرغزستان کے پارلیمانی انتخابات میں کوئی بھی جماعت مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق روس نواز جماعت کے سربراہ سابق وزیراعظم فیلکس کولوو نےکامیابی کا دعوی کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/PaYv
کرغستان کی صدر روزا اوتنباژیوا نے بشکیک میں ووٹ ڈالاتصویر: AP

اب تک کے نتائج کے مطابق متعدد جماعتوں کے مابین کانٹےکا مقابلہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے پانچ جماعتوں کی مخلوط حکومت بننے کے ہی امکانات ہیں۔ حکام نے بتایا کہ کہ حملوں اور ہنگامہ آرائی کے خوف کی وجہ سے صرف57 فیصد افراد نے ہی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ بین الاقوامی مبصرین نے بھی انتخابی عمل کی تعریف کی ہے۔

کرغزستان میں وسطی ایشیا کی پہلی پارلیمانی جمہوریت کے قیام سے قبل اتوار کواوّلین آزادانہ عام انتخابات منعقد کئے گئے۔

سیاسی تجزیہ کاروں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ الیکشن کرغزستان کی تاریخ کے سب سے خونریز فسادات کے محض چار ماہ بعد سابق سوویت یونین کی اس جمہوریہ کو ایک بار پھر متحد کردیں گے۔ ان انتخابات کی اہم بات یہ ہے کہ عام شہریوں کو رائے دہندگان کے طور پر یہ علم بالکل نہیں کہ اس الیکشن میں کون سی پارٹی نئی پارلیمان میں اکثریت حاصل کر سکے گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ کرغزستان میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا۔ نیا سربراہ حکومت جو بھی ہو، اس کا اوّلین کام یہ ہوگا کہ سیاسی اور نسلی اختلافات کی بنیاد پر شدید تقسیم کے شکار اس ملک کو متحد کرے ۔

کرغزستان کی صدر روزا اوتنباژیوا نے اتوار کو دارالحکومت بشکیک کے ایک میوزک سکول میں قائم پولنگ سٹیشن پر اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا، ’ہمارے لوگ واقعات کو اتنی جلدی سے نہیں بھولتے۔ ہمارے ملک کے عوام اپنے وطن کی تاریخ سے آگاہ ہیں۔ وہ بہت جلد متحد ہو کر ایک پارلیمانی جمہوریہ کے قیام کا فیصلہ کریں گے اورپھر اس کی حفاظت بھی کریں گے۔‘

کرغزستان تقریباً دو عشروں تک ایک ایسے خود پسندانہ نظام حکومت کا شکار رہا، جو اس ریاست کو داخلی استحکام اور جمہوریت دینے میں کامیاب نہ ہوا۔ اب اس ملک کے عبوری حکمران اس ریاست میں ایک طاقت ور وزیر اعظم کی قیادت میں ایک ایسا نظام حکومت چاہتے ہیں،جو داخلی تقسیم اور خونریز فسادات کے زخموں کو بھر سکے۔

Kirgisistan Rücktritt Bakijew Bakijew
کرغستان کے سابقہ صدر کُرمان بیک باقی ایئفتصویر: AP

کرغزستان میں چند ماہ پہلے ہونے والے سیاسی اور نسلی فسادات میں زیادہ تر مقامی کرغز اکثریت اور اُزبک نسل کی مقامی نسلی اقلیت کے مابین ہونے والے جھگڑوں میں چار سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔کرغزستان میں خونریز بدامنی کے یہ واقعات اسی سال جون میں ہوئے تھے۔

امریکہ نے وسطی ایشیا کی اس ریاست میں اپنی فوجوں کے لئے ایک فضائی اڈہ قائم کر رکھا ہے۔ اس ایئر بیس کے ذریعے افغانستان میں جاری جنگ میں امریکی اور اتحادی فوجیوں کی مدد کی جاتی ہے۔ امریکہ نے کرغزستان میں سیاسی نظام میں تبدیلی کے ذریعے ایک پارلیمانی جمہوریت کے قیام کے عمل کی مکمل حمایت کی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ماضی میں اس ملک میں صدارتی نظام حکومت کے ذریعے خود پسند سیاستدانوں نے اقتدار پر اپنی گرفت بہت مضبوط رکھی اورجمہوریت کو مضبوط بنانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس نے بھی کرغزستان میں اپنا ایک فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے لیکن ماسکو اس ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کے متعارف کرائے جانے کے خلاف ہے۔

سابق صدر کُرمان بیک باقی ایئف کے خلاف اسی سال اپریل میں عوامی بغاوت کے بعد اقتدار میں آنے والی صدر روزا اوتنباژیوا کہتی ہیں کہ اتوار کے عام الیکشن کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کو یقینی بنانے کے لئے پورے ملک میں آٹھ سو انتخابی مبصرین تعینات کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم کی طرف سے بھی کرغزستان میں طویل اور مختصر مدت کے لئے 240 مبصرین متعین ہیں۔

اتوار کے عام الیکشن میں کرغزستان کے 2.8 ملین رجسٹرڈ ووٹروں کو رائے دہی کے لئے کہا گیا۔ یہ تعداد ملک کی مجموعی آبادی کے نصف سے کچھ ہی زیادہ بنتی ہے۔ انتخابی مراکز مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے تک کھلے رہے۔ ابتدائی حتمی نتائج منگل تک سامنے آنے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔

رپورٹ:عصمت جبیں

ادارت: ندیم گِل