’کسی فوج کے علاوہ کوئی يہ کاروبار نہيں روک سکتا‘
16 فروری 2016ترک ساحلی شہر ازمير ميں انسانوں کے اسمگلر يا انہيں غير قانونی طور پر يورپ پہنچانے کا کام کرنے والا دُورسُون ايک دہائی سے يہ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ نيوز ايجنسی روئٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کو روکنا کسی فوج کے علاوہ اور کسی کے بس کی بات نہيں۔ اس نے کہا، ’’ترکی کو تمام ساحلوں پر فوجی اہلکار تعينات کرنا ہوں گے۔‘‘ تيس سالہ دُورسُون پناہ گزينوں سے بھری کشتيوں کو يورپی بر اعظم تک پہنچانے کے نتيجے ميں يونان ميں تين مرتبہ سلاخوں کے پيچھے وقت گزار چکا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس ايک ملين سے زائد تارکين وطن سياسی پناہ کی غرض سے يورپ پہنچے۔ ان کی بھاری اکثريت ترکی سے بحيرہ ايجيئن کے راستے يونان پہنچی تھی۔ يہی وجہ ہے کہ يورپی يونين اپنے ہاں غير قانونی تارکين وطن کی آمد کو روکنے کے ليے ترکی پر انحصار کر رہی ہے ليکن شايد يہ کام اس کے بس سے باہر ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کی جانب سے گزشتہ ہفتے تين بحری جہاز بحيرہ ايجيئن روانہ کر ديے گئے، جو وہاں انسانی اسمگلنگ کے انسداد اور نگرانی کا کام سر انجام ديں گے۔
گزشتہ برس نومبر ميں اٹھائيس رکنی يورپی يونين کے ساتھ طے پانے والی ايک ڈيل کے تحت انقرہ حکومت کو تين بلين يورو کی مالی امداد کے بدلے اپنے ہاں سے تارکين وطن کی غير قانونی ہجرت کو روکنا ہے۔ ترک حکام اس سلسلے ميں کافی دباؤ کا شکار ہيں۔ انقرہ حکومت نے بحيرہ ايجيئن سے متصل اپنی تقريباً 2,600 کلوميٹر طويل ساحلی پٹی پر نگرانی بڑھا دی ہے تاہم آیواجیک ضلعے کے گورنر نامک کمال نازلی بتاتے ہيں کہ حکام کے ليے ايک بڑا مسئلہ يہ ہے کہ يہ ساحلی پٹی زيادہ آباد نہيں اور متعدد ايسے ويران مقامات ہيں، جہاں اسمگلر پناہ گاہيں بنا سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’پورے کے پورے ساحل کی نگرانی مشکل عمل ہے اور اسمگلر اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہيں۔‘‘
مغربی سفارت کار انقرہ حکومت کو درپيش ايسے مسائل سے واقف ہيں تاہم ان کا پھر بھی يہی اصرار ہے کہ ترک حکومت مزيد اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جرائم پيشہ گروپوں کے خلاف سخت تر کارروائی اور اضافی پوليس کی تعيناتی۔
آج کل بھی يوميہ بنيادوں پر قريب دو ہزار تارکين وطن يونان پہنچ رہے ہيں۔ بين الاقوامی ادارہ برائے مہاجرين (IOM) کے مطابق اسمگلر اب پوليس سے بچنے کے ليے اور بھی زيادہ خطرناک راستے اختيار کر رہے ہيں۔