1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشادہ دلی کے لیے سرگرم وسیع تر اتحاد

امجد علی11 فروری 2016

جرمنی میں مختلف مذاہب اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ملک میں نسل پرستی کی مخالفت اور کشادہ دلی کی حمایت کرتے ہوئے اس اپیل پر دستخط کیے ہیں کہ مہاجرین کے موضوع پر بحث معروضی نوعیت کی ہونی چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1Hti9
Deutschland Grundgesetz Artikel 1 Schriftzug am Landgericht Braunschweig
’انسانی وقار مقدس اور ناقابلِ تنسیخ ہے‘، جرمن آئین میں درج الفاظ پر مشتمل یہ تختی شہر براؤن شوائیگ کی صوبائی عدالت کے باہر لگی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte

’انسانی وقار مقدس اور ناقابلِ تنسیخ ہے‘ کے عنوان کے تحت دَس شخصیات اور اداروں نے اپنے دستخط ثبت کرتے ہوئے ’جرمنی اور یورپ میں کھلے پن، یک جہتی، جمہوریت اور آئین اور قانون کی حکمرانی‘ کی وکالت کی ہے۔ دستخط کرنے والوں میں مختلف مذاہب کے نمائندے، ٹریڈ یونین تنظیمیں، آجرین اور مختلف تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ مہاجرین کے بحران کے ہوتے ہوئے بھی جرمنی کو یک جہتی ظاہر کرنے والا ایک پُر امن ملک رہنا چاہیے۔ جیسا کہ جرمن شہر ہیمبرگ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ جریدے ’دی سائٹ‘ نے ان اداروں اور شخصیات کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اپیل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’اتحاد برائے کھلا پن، یک جہتی، جمہوریت اور آئین اور قانون کی حکمرانی‘ نے مطالبہ کیا ہے کہ مہاجرین اور تارکینِ وطن کے بارے میں بحث ’عوامی جذبات کو اشتعال دلانے والی نہیں‘ بلکہ ’معروضی اور مسائل کے حل سے متعلق‘ ہونی چاہیے۔

منفرد اتحاد

کسی بھی طرح کی سیاسی وابستگی سے بالاتر اس اتحاد کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ انسان دشمن بیانات اور کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کی جائے، خواہ ان کا اظہار اور ارتکاب کوئی بھی کر رہا ہو اور کسی کے بھی خلاف کیا جا رہا ہو۔ اس اپیل پر دستخط کرنے والوں نے اس امر کی وکالت کی ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے پناہ کے متلاشیوں، اُن کی اقامت گاہوں، پولیس اہلکاروں، پریس کے نمائندوں اور امدادی کارکنوں کے خلاف کیے جانے والے انسانی وقار کے منافی حملوں پر قانونی کارروائی کی جائے اور ایسا کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ مزید یہ کہ جہاں کہیں بھی ریاست کی رِٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہو یا مجرمانہ کارروائیاں کی جا رہی ہوں، وہاں ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے اور اگر جرائم کے مرتکب افراد غیر ملکی شہری ہوں تو اُن کے جرمنی میں قیام کے اجازت نامے کو ممکنہ طور پر منسوخ بھی کر دیا جانا چاہیے۔ جمعرات کو اس اپیل کو، جو جرمنی بھر میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اپیل ہے، اس کے مکمل متن کے ساتھ دارالحکومت برلن میں جاری کیا جا رہا ہے۔