1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: بھارتی پیرا ملٹری بیس پر حملہ

3 اکتوبر 2017

بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسندوں نےعلاقائی ایئرپورٹ کے قریب واقع پیرا ملٹری کیمپ پر دھاوا بھول دیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دو مشتبہ حملہ آور ہلاک اور تین فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2l8K0
Indien Unabhängigkeitstag Feuergefechte in Srinagar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حملہ آوروں کی ایک غیر معلوم تعداد نے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کر دیا ہے۔ مرکزی شہر سری نگر کے علاقے میں واقع اس فوجی بیس کی سکیورٹی انتہائی سخت خیال کی جاتی ہے۔

ایک مقامی افسر ایس پی وید کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حملہ آور ہینڈ گرینیڈ پھینک رہے تھے اور خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ بھی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں کی طرف سے ان کا بھرپور جواب دیا جا رہا ہے۔

ایک پولیس اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ابھی تک دو حملہ آور مارے جا چکے ہیں جبکہ تین فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ اس اہلکار نے مزید بتایا ہے کہ فوجیوں نے اس عمارت کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے، جہاں ممکنہ طور پر مزید ایک علیحدگی پسند چھپا ہوا ہے۔

کشمیر میں اس فوجی کیمپ میں بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کی بٹالین موجود ہے اور اسے سری نگر ایئرپورٹ سے خاردار تاروں کے ذریعے سے الگ کیا گیا ہے۔ یہ ایئرپورٹ بھارتی ایئرفورس کے زیر کنٹرول ہے اور اس نے ہی اس کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔

کشمیری باغی رہنما کی تدفین میں پاکستانی پرچم لہرائے گئے

یہ بیس کیمپ ماضی میں بدنام زمانہ تفتیشی مرکز کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ مشتبہ باغیوں اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کو یہیں لایا جاتا تھا۔ مبینہ طور پر انہیں یہاں زیر قید  تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا تھا۔ بھارتی حکام کے مطابق اس حملے میں ایئرپورٹ مکمل طور پر محفوظ ہے لیکن اسے تقریبا چار گھنٹے کے لیے بند کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آج صبح نئی دہلی سے آنے والی ایک پرواز منسوخ کی گئی ہے اور باقی تین لڑائی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی ہیں۔

قریبی رہائشیوں کے مطابق وہ آج صبح سے متعدد دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات کی آوازیں سن چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ابھی بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ اس تمام علاقے کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ اس علاقے میں کئی اعلیٰ بیورکریٹ، پولیس افسران اور سیاستدانوں کے گھر ہیں۔ ابھی تک کسی بھی باغی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔