1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کمزور استغاثہ اور گواہوں کی عدم موجودگی سے بہت سے گرفتار عسکریت پسند رہا

22 ستمبر 2011

پاکستان میں غیر مؤثر قانون سازی، کمزور استغاثہ اور گواہوں کی عدم موجودگی کے باعث اکثر گرفتار شدہ عسکریت پسند عدالتوں سے رہائی حا‌صل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/12epW
تصویر: AP

 سوات میں ایک عرصے سے سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران سینکڑوں مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا گیا، تاہم موثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ  سے یہ لوگ عدالتوں سے رہائی حا‌صل کر لیتے ہیں۔ اب تک درجنوں افراد رہائی پاچکے ہیں اور رہائی پانے کے بعد ان میں سے زیادہ تر پھر سے متحرک ہوجاتے ہیں۔

جب ڈوئچے ویلے نے اس سلسلے میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر قانون بیرسٹر ارشد عبداللہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’سات سو کے قریب مبینہ شدت پسند گرفتار کئے گئے ہیں ان میں تقریبا28  کے مقدمات کی سماعت ہوئی ہے، تاہم موثر قانون سازی اور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر رہائی پاچکے ہیں۔  دو تین مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ یہ بھی رہا ہوجائیں گے۔ اس میں عدالتوں کا قصور نہیں ہے۔ بلکہ قانونی سقم آڑے آتی ہے۔‘‘

Supreme Court in Islamabad, Pakistan
پاکستان میں غیر مؤثر قانون سازی، کمزور استغاثہ اور گواہوں کی عدم موجودگی کے باعث عدالتیں اکثر گرفتار شدہ عسکریت پسندوں کو رہا کر دیتی ہیںتصویر: AP Photo

ان کا مزید کہنا تھا کہ مالاکنڈ میں دہشت گردی کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی متحرک نہیں تھے جس کی وجہ سے زیادہ تر عسکریت پسندوں کے خلاف درست طریقے سے ایف آئی آر بھی درج نہ ہو سکی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی دہشت گرد کے خلاف ڈر کے مارے کوئی گواہی دینے کیلئے تیار نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں انسداد دہشت گردی قوانین کو موثر کیوں نہیں بناتیں تو ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کی گئی ہے اور یہ اب ایوان بالا کی منظوری کی منتظر ہے۔  جیسے ہی وہ اس کی منظوری دیں گے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔ اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ 

مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مقابلہ صرف طاقت کے استعمال سے ممکن نہیں۔ جہاں اس کے لئے عوامی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے وہاں عدالتوں کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ عدالت کو قانون کے مطابق ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے جوحکومتی ادارے کئی سالوں میں بھی ممکن نہ بنا سکے۔ قانون سازی کے نام پر منتخب ایوانوں اور اس کے عملے پر صوبوں اور وفاق میں اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف سیاسی حکومتیں موثر قانون سازی کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کی وجہ  سے دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف طاقت کے استعمال اور فوجی آپریشن تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

سکیورٹی فورسز اور پولیس دہشت گردی میں ملوث افراد کو پکڑنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں جبکہ عدم ثبوت کی بناء اور کمزور دلائل کی وجہ سے یہ لوگ عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

مالاکنڈ ڈویژن کے دوسرے ضلع دیر میں بھی عسکریت پسند متحرک ہوچکے ہیں جہاں خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہاں بدھ کو علاقے کا فضائی جائزہ لینے والے ہیلی کاپٹر کو بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا جس میں سوات کے کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل جاوید اقبال زخمی ہوئے ہیں۔

رپورٹ: فرید اللہ خان

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں