1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کمزور نہ کو ہاں سمجھا جائے‘، عدالتی فیصلے پر تنقید

عاطف توقیر ڈی پی اے
28 ستمبر 2017

ایک بھارتی جج نے گزشتہ ہفتے ہی فلم ساز محمود فاروقی کو ریپ کے ایک مقدمے میں یہ کہہ کر بری کر دیا تھا کہ ایسے واقعے میں ’کمزور نہ‘ کو لڑکی کی جانب سے ’ہاں‘ سمجھا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ksvv
Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: Getty Images

اس بھارتی جج نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ کسی متاثرہ لڑکی کی جانب سے ’کمزور نہ‘ کا مطلب جنسی تعلق سے متعلق یہی ہے کہ وہ اس عمل پر راضی ہو سکتا ہے۔ گزشتہ برس ایک ماتحت عدالت کی جانب سے 39 سالہ فلم ساز محمود فاروقی کو جنسی زیادتی کے جرم میں سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔ فاروقی پر الزام تھا کہ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی کی ایک 30 سالہ ریسرچ اسکالر کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

بھارت، ایک اور مذہبی گرو پر عقیدت مند خاتون کے ریپ کا الزام

جنسی حملے کے دوران سات سالہ بچے کا قتل، بھارت میں غصے کی لہر

جنسی زیادتی کی شکار  بچی کو اسقاط حمل کی اجازت مل گئی

اس خاتون کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ اس دوران انہوں نے متعدد مرتبہ ’نہ‘ کہا تھا، تاہم فاروقی نے انہیں مجبور کیا اور ان سے جنسی زیادتی کی۔ عدالت کی جانب سے محمود فاروقی کو بری کیے جانے پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے شدید برہمی ظاہر کی ہے۔

رواں ہفتے مقدمے کی کارروائی کے دوران دہلی کی ہائی کورٹ کے جج اشوتوش کمار نے کہا کہ فاروقی کو ’کوئی علم نہیں تھا‘ کہ مبینہ متاثرہ خاتون ان کے ساتھ جنسی تعلق پر رضامند ہیں یا نہیں۔ اپنے فیصلے میں جج کا کہنا تھا، ’’ایسے کسی واقعے میں کسی خاتون کا ایسا رویہ جو کمزور نہ کی وجہ سے اپنی عدم رضامندی ظاہر کرنے میں ناکام رہے، ہاں سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘

جج کی جانب سے سنائے گئے اس فیصلے کے مطابق، ’’ایسے مقدمات میں یہ طے کرنا انتہائی ممکن ہے کہ جب کسی خاتون کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے، یا مزاحمت انتہائی کم ہو اور اس کمزور نہ کو کس طرح عدم رضامندی سمجھا جائے۔‘‘

ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھارت بھر میں مقامی میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ یہ عدالتی حکم نامہ ’رضامندی کی تعریف‘ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے۔

جسم فروشی پر مجبور فلپائنی بچیاں

خواتین کی معروف وکلاء نے روزنامہ ’ہندو‘ سے بات چیت میں کہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے میں کئی طرح کے سقم ہیں اور اس سے جنسی زیادتی کرنے والوں کو ’نئے انداز کے دفاع‘ کا میدان مہیا کر دیا گیا ہے، کیوں کہ اس سے بارِ ثبوت کسی متاثرہ لڑکی پر ڈال دیا گیا ہے کہ وہ ایسے کسی واقعے میں اپنے رضامند ہونے یا نہ ہونے کو ثابت کرے۔