1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم سن خود کش بمباروں کے استعمال میں اضافہ

صائمہ حیدر23 اگست 2016

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں شدت پسند گروہوں نے کم عمر بچوں کو بطور خود کش بمبار استعمال کرنےکی حکمت عملی اپنائی ہے۔ ترکی میں شادی کی تقریب میں کم عمر خود کش حملہ آور کا استعمال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JnQq
Afghanistan Kinder Selbstmordanschlag
افغانستان میں طالبان نے ایک طویل عرصے تک دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بچوں کا استعمال کیاتصویر: AP

اتوار 21 اگست کو عراق کے شمالی شہر کرکوک میں جب پولیس نے سولہ سال سے کم عمر نظر آنے والے ایک لڑکے کو پکڑا تو وہ بہت سہما ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کی قمیض کھینچنے پر پولیس کو اس کی دبلی پتلی کمر کے ساتھ قریب دو کلو وزن کا بم بندھا ہوا ملا۔ لیکن اس واقعے سے فقط ایک دن قبل ترکی میں شادی کے جشن میں شریک مہمان اتنے خوش قسمت نہیں تھے جہاں ایک نو عمر خود کش بمبار نے خود کو بم سے اڑا دیا۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ اس بم حملے میں اکیاون افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں نصف کے قریب بچے تھے۔

ہفتہ 20 اگست کو شامی سرحد کے قریب ترک صوبے غازی انتیپ میں اسی نام کے شہر میں ہونے والا یہ خود کش حملہ ترکی میں اس سال ہونے والے مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا بلکہ یہاں یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ دہشت گردانہ کارروائی کے لیے کسی نو عمر خود کش بمبار کو استعمال کیا گیا۔

Irak Polizei nimmt Jugendlichen mit einer Sprengstoffweste in Kirkuk fest
عراقی شہر کرکوک میں ایک کم عمر لڑکے کو خود کش جیکٹ کے ساتھ پکڑا گیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/Kurdistan 24 TV news

افریقہ سے شام تک کم عمر بچوں کو جنگوں میں پہلے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح افغانستان میں بھی طالبان نے ایک طویل عرصے تک دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بچوں کا استعمال کیا۔ افغانستان میں سن 2014 میں سائیکل پر سوار ایک چودہ سال کے لڑکے نے نیٹو بیس میں خود کش حملہ کیا تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے دو برس بعد افغان دارالحکومت کابل میں ایک نو عمر لڑکے نے فرانسیسی ثقافتی مرکز میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

محققین کا کہنا ہے کہ اب اسلامک اسٹیٹ اور دیگر عسکریت پسند بھی تیزی سے اسی حکمت عملی کا استعمال کر رہے ہیں۔ غالباﹰ اس طرح وہ اپنی صفوں میں ہوئے نقصانات کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں یا پھر ان کا مقصد بالغ جنگجوؤں کو کسی بڑی کارروائی کے لیے سنبھال کر رکھنا ہے۔ مغربی افریقہ میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام بھی بچوں اور کم سن بچیوں کو خود کش بمبار بنانے کے لیے اغوا کر چکی ہے۔

اس حوالے سے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ شام اور عراق میں اپنے زیر تسلط علاقوں سے بچوں کو اپنی تحویل میں لیتی ہے اور پھر مدرسوں اور کیمپوں میں ان بچوں کو مخصوص نظریات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عسکریت پسند گروپوں میں اسلامک اسٹیٹ بالخصوص وہ دہشت گرد جماعت ہے جو ان بچوں کو ’خلافت کا کم سن اسکاؤٹس بریگیڈ ‘ کا نام دیتی ہے اور ان کے تربیتی مراحل کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کی جاتی ہیں۔

Afghanistan IS Kindersoldaten Ausbildung
ان بچوں کے تربیتی مراحل کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کی جاتی ہیںتصویر: picture alliance/dpa/G. Habibi

بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی علاقائی ترجمان جولیٹ توما کے مطابق خطے میں بچوں کی بھرتی میں اضافہ ہوا ہے۔ توما کا کہنا ہے، ’’دہشت گردانہ کارروائیوں میں بچے بہت فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہیں اگلے مورچوں پر تعینات کیا جاتا ہے اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔ بعض انتہائی صورتوں میں خود کش بمبار کی طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اتوار کے روز بیان دیا تھا کہ شادی کی تقریب میں خود کو دھماکے سے اڑانے والے خود کش حملہ آور کی عمر بارہ سے چودہ سال کے درمیان تھی۔ صدر ایردوآن نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ اس حملے میں شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔