1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئٹہ: جان بچانے کے لیے کھڑکیوں اور چھتوں سے چھلانگیں لگائیں

26 اکتوبر 2016

پولیس اکیڈمی پر حملے میں بچ جانے والے کیڈٹس نے واقعے کے دوران خوفناک صورتحال کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ حملہ آور بلا تفریق ہر اس شخص کو گولی مار رہے تھے، جو نظر آ رہا تھا اور ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔

https://p.dw.com/p/2RhmD
Pakistan Angriff auf eine Polizei-Schule
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt

کوئٹہ پولیس اکیڈمی پر حملے کے نتیجے میں کم از کم اکسٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک سو تیئیس بتائی جا رہی ہے۔ اس دوران سینکڑوں کیڈٹس نے اپنی جانیں بھاگ کر بچائیں۔ اس حملے میں ملوث تین عسکریت پسندوں میں سے دو نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا جبکہ ایک حملہ آور فوج کی فائرنگ میں ہلاک ہوا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس حملے نے سن دو ہزار چودہ میں ہونے والے پشاور اسکول حملے کی یاد تازہ کر دی ہے، جس میں ایک سو پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی۔

کیڈٹ آصف حسین  بتاتا ہےکہ جس وقت گولیاں چلنے کی آواز آئی وہ سو رہا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’ہم نے خود کو بستروں کے نیچے چھپا لیا تھا۔ ہمارے ذہنوں میں یہ تھا کہ اگر ہم خود کو ہال کے اندر بند نہیں کرتے تو وہ ہمیں بھی مار دیں گے۔‘‘

آصف حسین کے مطابق حملہ آوروں نے ہال کا دروازہ کھولنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ حملہ آوروں نے کھڑکی سے ہال کے اندر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں دو کیڈٹ زخمی ہوئے۔ حملے کے بعد ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ کیڈٹس اور ان کے تربیت کاروں نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ کئی کیڈٹس نے کھڑکیوں اور چھتوں سے چھلانگیں لگا دیں۔

Pakistan Angriff auf eine Polizei-Schule
تصویر: Picture-Alliance/dpa/F. Ahmad

آصف حسین کے مطابق اس کے بعد فوجی دستے وہاں پہنچے اور ہمیں احساس ہوا کہ اب ہم محفوظ ہیں۔ اس حملے میں محفوظ رہنے والے ایک دوسرے کیڈٹ فیصل خان کا کہنا ہے کہ جس وقت فائرنگ کا آغاز ہوا، وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔ اُس کے بقول،’’ہم نے مرکزی دروازہ بند کر دیا اور کمرے کی بتیاں بھی۔‘‘

کوئٹہ پولیس کے ایک ترجمان شہزاد فرحت کے مطابق، ’’ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر اکیڈمی کے کیڈٹس شامل ہیں جبکہ حملے کے بعد جوابی کارروائی کرنے والے کچھ فوجی بھی مارے گئے ہیں۔‘‘

اس خونریز حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروپ داعش نے قبول کی ہے تاہم پاکستانی حکام نے داعش کے اس دعوے کی ابھی تک تصدیق نہیں کی ہے۔ پاکستانی طالبان سے علیحدہ ہونے والے ’حکیم اللہ گروپ‘ نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں پیرا ملٹری فورسز کے سربراہ میجر جنرل شیر افگن نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آوروں کو افغانستان سے ہدایات دی جا رہی تھیں اور اس حملے میں کالعدم گروپ لشکر جھنگوی العالمی کے ملوث ہو نے کے امکانات ہیں۔