1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئٹہ حملہ، داعش کے بعد طالبان نے بھی ذمہ داری قبول کر لی

عاطف بلوچ8 اگست 2016

کوئٹہ کے سول ہسپتال پر ہوئے خونریز خود کش بم حملے کی ذمہ داری انتہا پسند گروپ داعش کے بعد طالبان نے بھی قبول کر لی ہے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں پاکستان میں سن 2007 کے بعد سے ہونے والے خونریز حملوں پر۔

https://p.dw.com/p/1JdZp
Pakistan Quetta Bombenanschlag vor einer Klinik
تصویر: Reuters/Naseer Ahmed

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آٹھ اگست بروز پیر کو کیے گئے حملے میں 70 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے موجودہ پاکستان اور افغانستان پر مشتمل خراسان نامی علاقے میں فعال داعش کے جنگجوؤں نے کہا ہے کہ کوئٹہ میں حملہ اس کے جہادیوں نے کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب صوبائی بار ایسوسی ایشن کے مقتول سربراہ کی لاش کو لینے کے لیے سینکڑوں وکیل جمع تھے۔ داعش کے دعویٰ کے بعد طالبان نے کہا ہے کہ دراصل یہ حملہ اس کے خود کش بمبار نے کیا ہے۔

پاکستان میں کیے جانے والے کئی خونریز حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس جہادی تنظیم نے بلوچستان میں ہوئے کسی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں سن دو ہزار سات کے بعد پاکستان میں ہوئے ایسے ہی انتہائی خونریز ترین حملوں پر۔

سن دو ہزار سات: بے نظیر پر حملہ

اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

Pakistan Anschlag auf Benazir Bhutto nach Rückkehr 18.10.2007
اٹھارہ اکتوبر 2007 کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer

سن دو ہزار آٹھ: اسلام آباد میں شدت پسندی

اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اسی برس بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔

سن دو ہزار نو: پشاور اور لاہور نشانے پر

اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ اسی برس دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں ہونے والی چار مختلف خونریز کارروائیوں میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔

سن دو ہزار دس: ساڑھے تین سو زائد افراد ہلاک

سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی برس اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں احمدیوں کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔

تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔

Pakistan Trauer nach Angriff auf Militärschule in Peschawar 17.12.2014
2014 میں پشاور کے ایک اسکول پر حملے کی وجہ سے 154 افراد مارے گئے تھےتصویر: Reuters/Navesh Chitrakar

سن دو ہزار گیارہ: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی

تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

دو ہزار تیرہ: اقلیت پر حملے

اس برس کے آغاز پر دس جنوری کے دن کوئٹہ میں دوہرا خود کش حملہ کیا گیا، جو بانوے افراد کو ہلاک کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس مرتبہ شدت پسندوں نے ایک شیعہ اکثریتی آبادی والے ایک علاقے میں واقع ایک سنوکر کلب کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں ہدف شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ تھے۔

سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ اس برس مارچ کی تین تاریخ کو کراچی میں شیعہ اکثریتی آبادی والے ایک علاقے میں کار بم حملہ کیا گیا، جس میں پینتالیس افراد لقمہٴ اجل بنے۔

بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ حملہ ٹھیک اس وقت کیا گیا تھا، جب اتوار کے دن مسیحی اپنی عبادت کے بعد بعد چرچ سے باہر نکل رہے تھے۔

سن دو ہزار چودہ: اسکول پر بہیمانہ حملہ

دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔

اسی برس سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اس حملے کے بعد پاکستان نے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی تھی۔

سن دو ہزار پندرہ: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ

تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اس شہر میں شیعہ مسلمانوں کی اس مسجد پر حملے کے بعد صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی شدت پسندی کا خوف پھیل گیا تھا۔

تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

Pakistan Quetta Bombenanschlag in einer Klinik
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد مارے گئےتصویر: Reuters/N. Ahmed

سن دو ہزار سولہ: لاہور اور کوئٹہ زد پر

رواں برس ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔