1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا بحران: دنیا پاکستان سے کیا سیکھ سکتی ہے؟

بینش جاوید
20 مئی 2020

انسانی حقوق کی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے مطابق دنیا پاکستان سے اس عالمی وبا کے دوران انسانی ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3cWh5
Pakistan Pressebilder Deutsche Botschaft Islamabad | Deutsche Hilfe in der Corona-Pandemie
تصویر: Deutsche Botschaft Islamabad

ایمنسٹی نے ایک  ویڈیو میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستانی شہریوں کی مدد کرنے والی متعدد غیر سرکاری تنظیموں کے فلاحی کاموں کو دکھایا ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نے کئی لوگوں کی مالی مشکلات میں اضافہ کیا۔ بہت سے لوگ بے روزگار ہوگئے اور لاکھوں کاروبار عارضی طور پر بند کر دیے گئے۔ ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی تو کر دی گئی ہے لیکن کچھ روز قبل تک نافذ لاک ڈاؤن نے پہلے سے ہی کمزور معیشت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے احساس پروگرام کے تحت ملک کے انتہائی متوسط طبقے کی مالی مدد تو کی گئی ہے لیکن یہ بیس کروڑ سے زائد کی آبادی پر مشتمل ملک کے لیے ناکافی ہے۔

Coronavirus in Pakistan - Beginn des Ramadan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

ایسے میں پاکستان کی سول سوسائٹی متحرک ہوئی اور کئی غیر سرکاری تنظیمیں اور عام شہری عوام کی مدد کرنے میں سرگرم ہوئے۔ پشاور میں رہائش پذیر پاکستان کی سکوائش کی کھلاڑی نورینہ شمس، جن کا نام عالمی رینکنگ میں شمار ہوتا ہے، وہ کورونا وائرس کے بحران کے دوران اپنے علاقے کے لوگوں کی مدد کے لیے کافی سرگرم ہیں۔ نورینہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میں نے غیر سرکاری تنظیم'گرین والونٹیئزر آرگنائزیشن‘ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ ہم نے دیر اور مالاکنڈ کے علاقے میں لوگوں کو راشن پہنچایا۔‘‘ نورینہ نے بتایا کہ اب تک یہ تنظیم صرف دیر میں ہی ایک ہزار خاندانوں کو ماہانہ راشن فراہم کر چکی ہے۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے اس بحران میں پاکستانی سول سوسائٹی کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،''ایک غیر اعلانیہ نیٹ ورک ہے جس میں ڈاکٹرز، مختلف فاؤنڈیشنز، طالب علم وغیرہ شامل ہیں اور وہ بہت بڑے پیمانے پر عوام کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘عاصمہ نے کہا کہ نہ صرف غیر سرکاری تنظیمیں بلکہ سیاسی جماعتیں جیسے کہ جماعت اسلامی، سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کے تحت بھی لوگوں کی مدد کی جارہی ہے۔

عاصمہ کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی بحران ہو پاکستانی عوام ایک دوسرے کی مدد کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں،''پاکستان میں غربت کے باوجود اس طرح سے لوگ بھوک کا شکار نہیں ہیں جیسے کہ دیگر ممالک میں دیکھا  گیا ہے۔‘‘

Logo Amnesty International

صحافی اویس توحید نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سابق فوجی آمر ضیاء الحق کے وقت سے پاکستانی سول سوسائٹی بہت متحرک ہے اور پاکستان جیسا معاشرہ جہاں لوگوں کو حکومتی اور سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں پر وہ نہ صرف لوگوں کی مالی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں بلکہ اقلیتوں کے حقوق، دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی جیسے پیچیدہ معاملات پر بھی آواز اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔

واضح رہے کہ مالی سال دوہزار انیس۔ بیس میں پاکستان کی شرح نمو منفی صفر اشارعیہ تین آٹھ فیصد ریکارڈ کی گئی اور 68 سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام کے لیے مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے شائع ہونے والی ویڈیو میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ صرف عوام نہیں حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔ لاک ڈاؤن سے متعلق انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم'ہیومن رائٹس واچ‘ نے پاکستانی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر براڈ ایڈیمز نے پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت نے کورونا وائرس کے خطرے کا درست اندازہ نہیں لگایا اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد لوگوں کو کووڈ انیس بیماری کے بارے میں احتیاطی تدابیر سے آگاہ نہیں کیا۔

تاہم تجزیہ کار امتیاز گل کی رائے میں سارا الزام حکومت کو دینا درست نہ ہوگا۔ ان کے بقول پاکستان جیسے حالات میں پی ٹی آئی کی حکومت نے وہی کیا جو کوئی دوسری حکومت کرتی۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں