1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا سے نمٹنے کا سویڈش انداز، غیر ملکی پریشان

3 جون 2020

ایوا پاناریزے کی والدہ سویڈن سے تھیں مگر وہ اٹلی میں پلی بڑھیں اور یہ خواب ديکھ رہی تھیں کہ ایک دن سویڈن میں وہ آباد ہوں گی۔ آخرکار دو برس قبل وہ سویڈن میں زندگی بسر کرنے کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

https://p.dw.com/p/3dBVY
Schweden Stockholm | Coronavirus | Menschen im Park
تصویر: Imago Images/H. Montgomery

ایوا پاناریزے نے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ سویڈن میں ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کا آغاز کر دیا۔ لیکن ابھی پوری طرح آبادکاری بھی نہیں ہوئی تھی کہ کورونا وائرس نے تقریباً سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پاناریزے فیملی کو ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

وہ رواں برس اٹلی میں ایک پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد جب واپس سویڈن پہنچیں تو پہلے بیٹا اور پھر شوہر کو کووڈ انیس کی بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایوا پاناریزے کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں طریقہٴ علاج سے وہ حیران رہ گئیں کیونکہ ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت دوسرے عملے نے ماسک پہنے ہی نہیں تھے۔ ان کا علاج تو کیا گیا۔ بیٹا جلدی صحت یاب ہو گیا لیکن شوہر دیر تک بیمار رہا۔ 

بچوں کو مہلک وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے جب گھر میں رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسکول والوں نے اعتراض اٹھا دیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتیں اور بچوں کو اسکول بھیجنا لازمی ہے۔ انہیں اور ان جیسے دوسرے والدین کو روزانہ کی بنیاد پر اسکول کی جانب سے مختلف خطوط موصول ہونے لگے۔ ان میں واضح کیا گیا کہ اگر بچہ صحت مند ہے تو اُس کا اسکول پہنچنا ضروری ہے۔ 

کورونا کے خلاف جنگ: سویڈن کی حکمت عملی مختلف

سویڈن کے قانون کے مطابق صحت مند بچے کو اسکول نہ بھیجنا خلاف ورزی کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا یا کسی بھی بیماری کے دوران بچے کا گھر میں رہنے کا اختیار بھی اسکول انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے والدین پر علاقائی بلدیاتی کونسلوں کی جانب سے جرمانے بھی عائد کيے گئے۔ بچوں کے گریڈز میں کمی بھی کی گئی۔ ایسی صورت حال نے ایوا پانا ریزے کو اپنے خواب ملک کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ پاناریزے نے فیصلہ کیا کے وہ نوکری تو سویڈن میں جاری رکھیں گی لیکن خاندان سمیت رہائش ڈنمارک میں رکھیں گی۔ ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان کار کے ساتھ فاصلہ صرف تیس منٹ میں طے کیا جا سکتا ہے۔

جان لیوا کورونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی گئی لیکن سویڈن نے اپنا ہی راستہ منتخب کیا۔ وائرس سے بچنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے عوام الناس کو تلقین کی گئی کہ وہ ان پر خود سے عمل کرتے ہوئے بیماری سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں۔ اس سویڈش پالیسی کی تعریف اور مذمت اندرون اور بیرون ملک کی گئی۔ غیر ملکیوں نے سویڈش حکومت کی حکمت عملی کو زیادہ پسند نہیں کیا اور دوسرے ملکوں میں منتقل ہونے کا سوچنا شروع کر دیا۔ غیر ملکیوں کے انخلا سے پیدا ہونے والی صورت حال پر سویڈش تجزیہ کاروں نے بھی توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی اور اس کو ایک بڑا دہچکا قرار دیا۔ ایک تھنک ٹینک کی پراجیکٹ مینیجر ایمانوئیلا فلوقوئٹ کا کہنا ہے حکومتی پالیسی کی وجہ سے لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے اور ان کی ترجیحات میں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔

ایک پرائیویٹ رائے عامہ کے جائزے کے مطابق سویڈن سے قریب ساڑھے تین سو شہری دوسرے ممالک منتقل ہونے کی کوشش میں ہیں۔ ان میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ورکرز بھی شامل ہیں۔ 

رواں برس کے دوران بیروزگاری میں نو فیصد اضافے کا اندازہ حکومت نے لگا رکھا ہے۔ بیروزگاری کے حوالے سے یہ گزشتہ بیس برسوں میں سب سے زیادہ شرح ہو گی۔

 

ع ح، ک م (حیبا حبیب، اسٹاک ہولم)