1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کون بنے گا امریکی صدر؟ اوبامہ یا میک کین؟

Geelani, Gowhar28 مئی 2008

امریکہ میں نومبر کے حتمی صدارتی انتخابات سے قبل حریف ڈیموکریٹک اور رپبلکن جماعتوں کے صدارتی امیدواروں‘ باراک اوبامہ اور جان میک کین کے درمیان الفاظ کی جنگ ہر گُزرتے دن کے ساتھ شدّت اختیار کرتی جارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/E7vW
تصویر: AP GraphicsBank

کئی اہم داخلی اور بیرونی مسائل پر ان دو سیاسی شخصیات کی آراء بھی جدا ہے۔ رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان میک کین عراق میں امریکی فوجی مداخلت کے نہ صرف زبردست حامی ہیں بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عراق میں امریکی فوج کی موجودگی سے وہاں سیاسی استحکام میں مدد مل رہی ہے۔ دوسری جانب‘ سیاہ فام ڈیموکریٹ اور نومبر کے حتمی انتخابات کے لئے اپنی جماعت کے ممکنہ صدارتی امیدوار‘ باراک اوبامہ کا کہنا ہے کہ اگر وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ سولہ ماہ کے اندر سیاسی بحران کے شکار ملک‘ عراق سے امریکی افواج کو واپس بلائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی سینیٹ کے لئے منتخب ہونے سے قبل‘ باراک اوبامہ عراق جنگ کے زبردست مخالفین میں شامل تھے۔

ایران کے ساتھ متنازعہ معاملات حل کرنے کے تعلق سے بھی اوبامہ اور میک کین کی رائے الگ ہے۔ میک کین کا موقف سخت گیر ہے۔ وہ تہران حکومت پرعسکریت پسندوں کو ہتھیاروں کی تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عراق اور لبنان کے موجودہ ابتر حالات کے لئے ایران ذمہ دار ہے۔ میک کین کہتے ہیں کہ ایرانی حکومت حزب اللہ اور حماس جیسی عسکری تنظیموں کی معاونت کررہی ہے۔ میک کین چاہتے ہیں کہ امریکہ کو ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے باعث اس پر مذید سخت پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ وہ اسرائیلی ریاست کے وجود کے لئے ایک حقیقی خطرے کی صورت میں ایران میں فوجی مداخلت کے بھی حامی ہیں۔

لیکن باراک اوبامہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اوبامہ کہتے ہیں کہ وہ احمدی نژاد کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کے حق میں ہیں۔ وہ ایرانی صدر کے ساتھ ملاقات لئے بھی تیار نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اوبامہ کا واضح طور پر کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری طاقت کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اسرائیل۔فلسطین تنازعے پر بھی میک کین اور اوبامہ مختلف انداز سے سوچتے ہیں۔ میک کین فخر سے خود کو اسرائیل حامی قرار دیتے ہیں۔ تاہم میک کین نے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اوبامہ نے اسرائیل اور امریکہ کے باہمی رشتوں کو کبھی نہ ٹوٹنے والی دوستی سے تعبیر کیا ہے۔مشرق وسطیٰ تنازعے کے حوالے سے اوبامہ کا موقف ہے کہ یہودی ریاست کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے لئے بھی ایک علیحدہ ریاست کا ہونا لازمی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دو ریاستوں کے قیام کے لئے وہ اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔ اوبامہ شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ افغانستان جنگ پر دونوں صدارتی امیدواروں کی رائے تقریباً ایک جیسی ہے۔

جہاں تک داخلی مسائل کا تعلق ہے تو باراک اوبامہ خود کو امریکی عوام کے زیادہ قریب مانتے ہیں اور میک کین پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ لوگوں سے کٹے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء آئندہ ہفتے کو ہونے والی صدارتی پرائمریز سے قبل اوبامہ کی انتخابی مہم کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی باراک اوبامہ کو ہی اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرے گی۔ نیو یارک ڈیلی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویوں میں اوبامہ کے کیمپین ایڈوائزر David Axelrod نے کہا کہ تین جون کی پرائمریز کے بعد اوبامہ کے پاس نامزدگی کے لئے مطلوبہ مندوبین کی حمایت ہوگی جس کے بعد وہ نامزدگی کے لئے دعویٰ کرسکتے ہیں۔ سی این این کے اندازوں کے مطابق اوبامہ کو نامزدگی کے لئے باون جبکہ سابق خاتون اوّل‘ ہلری کلنٹن کو دو سو چھیالیس مندوبین کی حمایت درکار ہے۔ تین جون کی پرائمریز میں چھیاسی پلیجڈ مندوبین کے لئے مقابلہ ہوگا جبکہ دو سو سپر ڈیلیگیٹس نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وہ اوبامہ اور کلنٹن میں سے کس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔