1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنا ممکن ہے؟

عاصم سليم16 مارچ 2016

امکانات ہيں کہ اس ہفتے يورپی يونين اور ترکی کے مابين اس معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے، جس کے ذريعے انسانی اسمگلروں اور غير قانونی ہجرت کا انسداد ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم کيا اس کاروبار کو مکمل طور پر روکنا ممکن ہے؟

https://p.dw.com/p/1IEAL
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Palacios

ترک شہر استنبول کے آق سرائے نامی محلے ميں صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی کاروباری سرگرمياں شروع ہو جاتی ہيں۔ بد حال تارکين وطن اپنا بوريا بستر اور لائف جيکٹيں اٹھائے انسانوں کے اسمگلروں کا تعاقب کرتے دکھائی ديتے ہيں۔ کچھ ہی دير بعد يہ مقام مہاجرين اور اسمگلروں کا گہوارا بن جاتا ہے۔ شامی اور ديگر قوميت کے پناہ گزين غير قانونی طريقوں سے يورپ پہنچنے کے ليے ان اسمگلروں کے ساتھ سودے کرتے دکھائی ديتے ہيں۔ استنبول کے اس ’اسمگلر چوک‘ پر روزانہ نہ جانے کتنوں کی موت کا سودا ہوتا ہے تو کتنوں کی قسمت نئے سرے سے کسی اور مقام پر لکھ دی جاتی ہے۔

علی ايک شامی مہاجر ہے، جو ايک ريستوران ميں کام کرتا ہے ليکن اپنی آمدنی بڑھانے کے ليے تارکين وطن کو غير قانونی طريقوں سے يورپ پہنچانے ميں بھی سرگرم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ يورپ پہنچنے کے خواہشمند ہر شخص کو آق سرائے سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتا ہے، ’’آق سرائے کے کسی بھی کيفے يا دکان ميں چلے جائيں اور بس يہ کہہ ديں کہ آپ کو يورپ جانا ہے۔ پھر آپ کو ان گنت پيشکشيں ہوں گی۔‘‘ علی نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کو يہ انٹرويو ديا۔

تارکين وطن کی غير قانونی انداز ميں يورپ کی طرف ہجرت اور انسانی اسمگلنگ کے انسداد کے ليے انقرہ حکومت اور يورپی يونين کے مابين ايک جامع ڈيل پر اتفاق ہو چکا ہے اور امکانات ہيں کہ سترہ اور اٹھارہ مارچ کو برسلز ميں ہونے والے يورپی سربراہی اجلاس ميں اس پر حتمی فيصلہ بھی ہو جائے گا۔ مجوزہ ’ايک کے بدلے ايک‘ ڈيل کے تحت ہر ايک غير قانونی تارک وطن کو يورپ سے ترکی منتقل کيا جائے گا اور اس کے بدلے ترکی سے ايک پناہ گزين کو قانونی انداز ميں يورپ منتقل کيا جائے گا۔ حکام کا ماننا ہے کہ اس ڈيل کے ذريعے اسمگلروں کے کام کی مانگ ميں کمی آ سکتی ہے۔ اس کے برعکس ناقدين کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی بدولت وسيع پيمانے پر ملک بدريوں کا موقع مل سکے گا۔

گزشتہ برس تقريباً ساڑھے آٹھ لاکھ افراد ترکی کے راستے بحيرہ ايجيئن سے ہوتے ہوئے يونان پہنچنے ميں کامياب رہے تھے
گزشتہ برس تقريباً ساڑھے آٹھ لاکھ افراد ترکی کے راستے بحيرہ ايجيئن سے ہوتے ہوئے يونان پہنچنے ميں کامياب رہے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Palacios

گزشتہ برس تقريباً ساڑھے آٹھ لاکھ افراد ترکی کے راستے بحيرہ ايجيئن سے ہوتے ہوئے يونان پہنچنے ميں کامياب رہے تھے۔ البتہ مجوزہ ڈيل کے حوالے سے سنجيدگی کے مظاہرے کے ليے پچھلے چند مہينوں سے انقرہ حکومت نے تمام سرحديں بند کر ديں ہيں۔ معاہدے کے تحت ترکی کو تين اعشاريہ تين بلين يورو ملنے ہيں جبکہ انقرہ نے مزيد تين بلين کا مطالبہ کيا ہے۔ اس کے علاوہ انقرہ نے ترک شہريوں کے ليے يورپی يونين ميں بغير ويزے کی سہولت کی مانگ بھی سامنے رکھی ہے۔

ليکن انقرہ اور برسلز کے مابين اس تمام تر پيش رفت کے باوجود نيوز ايجنسی اے پی کے ساتھ بات کرنے والے متعدد اسمگلروں کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار کو بند کرنا نا ممکن سی بات ہے۔ اسمگلروں کے ليے ان حالات ميں خطرات کافی زيادہ ہيں ليکن فائدے بھی متعدد ہيں۔ ہر سفر کے ليے کم از کم چھ ہزار ڈالر کی کشتی درکار ہوتی ہے، جسے مہاجرين کے يونانی جزائر پر پہنچنے کے بعد چھوڑ دينا ہوتا ہے۔ فی تارک وطن اوسطاً ايک ہزار ڈالر ليا جاتا ہے اور ہر ايک کشتی پر اوسطاً تيس افراد سفر کرتے ہؤں۔ اس حساب سے کسی اسمگلر کے ليے ہر ايک چکر کی آمدنی چوبيس ہزار ڈالر بنتی ہے۔

حسام ازمير ميں کام کرنے والا انسانوں کا ايک اسمگلر ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ پچھلے سال موسم گرما ميں اس کی آمدنی پچاس ہزار ڈالر کے لگ بھگ رہی اور اس سال بھی وہ قريب سات ہزار ڈالر کما چکا ہے۔ اس کے بقول گو کہ ان دنوں گشت بڑھ گئی ہے تاہم اسمگلر پھر بھی نئے راستے نکال ليتے ہيں اور عموماً سفر ايسے اوقات پر کرتے ہيں جب گشت نہ ہو رہی ہو۔