1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا باڑيں نصب کرنا مہاجرين کے بحران کا حل ہے؟

عاصم سليم4 اپریل 2016

انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيموں کا کہنا ہے کہ يورپی يونين کی چند رکن رياستوں کی جانب سے باڑيں نصب کرنے کے نتيجے ميں پناہ گزينوں کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور يہ يورپی قوانين کے خلاف ہے۔

https://p.dw.com/p/1IP9V
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Ghirda

اٹھائيس رکنی يورپی يونين کی بنياد دوسری عالمی جنگ کے بعد رکھی گئی تھی اور اس کے قيام کا ايک مقصد يہ بھی تھا کہ ان کے شہری رکن ملکوں کے درميان آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکيں۔ اس کے برعکس سن 1989 ميں ديوار برلن کو گرائے جانے کے بعد سے اب تک يورپی رياستيں مختلف مقامات پر تقريباً پانچ سو ملين يورو کی لاگت سے بارہ سو کلوميٹر طويل باڑيں نصب کر چکی ہيں۔

ان ميں سے زيادہ تر باڑيں اٹھائيس رکنی يورپی يونين کی رکن رياستوں اور غير رکن ملکوں کے درميان ہی ہيں تاہم چند مثاليں ايسی بھی ہيں، جہاں یورپی بلاک کے رکن ممالک نے درميانی سرحد پر باڑ نصب کر رکھی ہے۔ ايک اور حيران کن انکشاف يہ ہے کہ رکن رياستوں کے مابين باڑيں نصب کرنے کا زيادہ تر کام پچھلے سال يعنی سن 2015 ميں شروع ہوا۔

انسانی حقوق کے ليے سرگرم ادارے ايمنسٹی انٹرنيشنل کے يورپ ميں ہجرت سے متعلق امور پر نظر رکھنے والے محقق آرم ارف کہتے ہيں، ’’جہاں کہيں اور جب کبھی بھی بڑی تعداد ميں پناہ گزينوں نے يورپ ميں داخل ہونے کی کوشش کی، اس کے رد عمل ميں باڑ نصب کی گئی۔‘‘ حکومتوں کے ليے باڑ نصب کرنا ايک آسان سا حل ہے۔ سرحد پر باڑ لگانا مکمل طور پر قانونی عمل ہے اور حکومتوں کے پاس يہ اختيار ہے کہ وہ جسے چاہيں اپنے ملک ميں داخل ہونے ديں اور جسے چاہيں نہ ہونے دیں۔ يورپ ميں جہاں جہاں باڑ نصب کی گئی، اس مقام پر غير قانونی ہجرت ميں کمی واقع ہوئی۔

باڑيں نصب کرنے کا زيادہ تر کام پچھلے سال يعنی سن 2015 ميں شروع ہوا
باڑيں نصب کرنے کا زيادہ تر کام پچھلے سال يعنی سن 2015 ميں شروع ہواتصویر: picture-alliance/dpa/N.Batev

فرانس اور برطانيہ کے درميان سرنگ کے ذريعے آمد و رفت کی نگران کمپنی کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر ميں متعارف کرائی جانے والی سختيوں کے بعد غير قانونی تارکين وطن اب مسئلہ نہيں۔ يورو ٹنل کے ترجمان جان کيفی کے بقول اکتوبر کے وسط سے سروسز ميں کوئی تعطل نہيں آيا اور يہ کہا جا سکتا ہے کہ باڑ اور اضافی سکيورٹی کافی کار آمد ثابت ہوئے ہيں۔

اگرچہ ان اقدمات کے نتيجے ميں وقتی طور پر غير قانونی ہجرت کا مسئلہ حل ہو گيا ہے تاہم يہ اقدامات لوگوں کو کوششيں کرنے سے روک نہيں سکتے۔ نتيجتاً پناہ گزين زيادہ خطرناک متبادل راستے اختيار کرنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيموں کا کہنا ہے کہ چند مقامات پر باڑيں، مہاجرين کے ليے پناہ کی تلاش ميں رکاوٹ ثابت ہوتی ہيں جبکہ يورپی قوانين واضح طور پر يہ کہتے ہيں کہ ہر کسی کو سياسی پناہ کے ليے درخواست دينے اور اس کے جائزے کا حق حاصل ہے۔

اس مسئلے کا ايک اور اہم يہ ہے کہ جہاں باڑ نصب ہوتی ہے وہاں نہ صرف محافظوں کا گشت بڑھا دیا جاتا ہے بلکہ کئی کيمرے بھی لگائے جاتے ہيں۔ ايسی سخت نگرانی کے نتيجے ميں پناہ کے متلاشی تارکين وطن کے ليے اپنے مقصد کا حصول کافی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم متعدد اداروں نے ايسی کئی رپورٹس جمع کر رکھی ہيں، جن ميں سرحدوں پر موجود اہلکار نے تارکين وطن کو تشدد کا نشانہ بنايا ہو اور پھر انہيں واپسی کا راستہ دکھا ديا ہو۔