1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا جرمنی، يورپ کو بحرانوں سے نجات دلا پائے گا؟

عاصم سليم15 فروری 2016

يورپی بر اعظم کو ان دنوں متعدد بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے ليے ميونخ سکيورٹی کانفرنس ميں بحث و مباحثہ تو بہت ہوا تاہم کسی بھی مسئلے کا جامع حل تاحال دستياب نہيں۔

https://p.dw.com/p/1Hvkh
تصویر: Reuters/F. Bensch

ميونخ سلامتی کانفرنس چودہ فروری کو اپنے اختتام کو پہنچی۔ اگرچہ کانفرنس کا آغاز بڑی اميدوں اور ارادوں کے ساتھ ہوا تھا تاہم اختتام ذرا تاريک رہا۔ شام ميں قيام امن کا منصوبہ ڈگمگا رہا ہے، جبکہ روس مسلسل تناؤ جاری رکھے ہوئے ہے اور ايسا معلوم ہوتا ہے کہ يورپ کو درپيش متعدد بحرانوں کے حل کے ليے جرمنی قيادت تو کر رہا ہے، ليکن کوئی اور يورپی رياست اس کے پيچھے چلنے کو تيار نہيں۔

جرمن شہر ميونخ ميں سالانہ بنيادوں پر ميونخ سکيورٹی کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے، جس ميں يورپ، مشرق وسطی، ايشيا و امريکا سے کئی رہنما اور مندوبين عالمی مسائل پر بحث اور مباحثہ کرتے ہيں۔ اس بار کے اجتماع کے بارے ميں گفتگو کرتے ہوئے بروکنگز انسٹيٹيوٹ سے وابستہ ايک تجزيہ کار کانسٹينز اشٹيلزن مولر کہتے ہيں، ’’رہنما گھبرائے ہوئے ہيں اور مشکل صورتحال سے دوچار ہيں۔‘‘ ان کے بقول اس بار يہ کانفرنس عجيب و غريب انداز ميں ’لنگڑاتی‘ نظر آئی۔ ان کا مزيد کہنا تھا، ’’جرمنی سفارتی حوالے سے وہ سب کچھ کر رہا ہے، جو کيا جانا چاہيے تاہم کارآمد حل تلاش کرنا اور با اثر  اتحاد کا قيام مشکل ثابت ہو رہا ہے۔‘‘

ميونخ سکيورٹی کانفرنس کے انعقاد سے کچھ ہی دير قبل جرمن وزير خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر کی ميزبانی ميں عالمی رہنماؤں کے ايک اجلاس ميں شام ميں پر تشدد کارروائياں روکنے پر اتفاق رائے قائم ہوا، جس کے نتيجے ميں ايک اميد سی پيدا ہو گئی تھی کہ شايد پانچ برس سے جاری اور قريب ڈھائی لاکھ افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والی شامی خانہ جنگی رک پائے گی۔ ليکن چند ہی گھنٹوں ميں روسی وزير خارجہ سيرگئی لارورف کے اس اعلان کے بعد کو روس شام ميں اپنی فضائی کارروائياں ترک نہيں کرے گا، تمام تر اميدوں پر پانی پھر گيا۔ بعد ازاں ميونخ سکيورٹی کانفرنس کے موقع پر روس کے وزير اعظم ديميتری مدوديف نے يہ بھی کہہ ديا کہ دنيا کو ايک نئی ’سرد جنگ‘ کا سامنا ہے۔

München Sicherheitskonferenz - Moshe Yaalon
ميونخ سکيورٹی کانفرنستصویر: Reuters/M. Dalder

دريں اثناء دوسری عالمی جنگ کے بعد يورپ کی تاريخ کے بد ترين مہاجرين کے بحران کے حل کے ليے جرمنی تو کوشاں ہے ليکن ديگر يورپی ممالک اس کے نقش و قدم پر چلنے کو تيار نہيں۔ ميونخ ميں فرانسيسی وزير اعظم مانوئل والس نے برلن حکومت پر واضح کر ديا کہ ان کا ملک يورپی يونين کے ساتھ طے شدہ تيس ہزار مہاجرين کے علاوہ ايک بھی تارک وطن کو پناہ فراہم نہيں کرے گا۔ والس نے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کا مہاجرين کی ايک طريقہ کار کے تحت مستقل تقسيم کے مجوزہ منصوبے کو بھی مسترد کر ديا۔

سفارت کار جرمنی اور چند ديگر يورپی ممالک کی جانب سے بحيرہ ايجيئن کی نگرانی اور انسانی اسمگلروں کے خلاف کريک ڈاؤن کا کام نيٹو کے دستوں اور بحری جہازوں کو سونپنے کو بھی شکوک و شبہات کی نگاہ سے ديکھتے ہيں۔ ايک يورپی سفارت کار کے مطابق، ’’ہم نہيں سمجھتے کہ يہ کار آمد ثابت ہو گا۔ ميرکل صرف يہ ثابت کرنا چاہتی ہيں کہ جرمنی تنہا نہيں۔‘‘