1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بھارتی شہریوں کی گھڑیوں کو مختلف وقت دکھانا چاہیے؟

امتیاز احمد20 جون 2016

ان دنوں بھارت کے شمال مشرق میں جب کام کے اوقات کا آغاز ہوتا ہے تو سورج آسمان پر چمک رہا ہوتا ہے اور گرمی عروج پر ہوتی ہے کیوں کہ بھارت میں ایک ہی ٹائم زون ہے اور ملک بھر میں دفتری اوقات بھی ایک ہیں۔

https://p.dw.com/p/1J9pp
Symbolbild Uhr und Bildschirm
تصویر: Colourbox

مغربی بحیرہ عرب سے لے کر مشرق میں واقع بنگلہ دیش کی سرحد تک پھیلے ہوئے ایک اعشاریہ دو ارب بھارتیوں کے لیے صرف ایک ہی ٹائم زون ہے۔ بھارت کا معیاری وقت اتر پردیش کے حساب سے رکھا گیا ہے کیوں کہ یہ علاقہ ہی بھارت کے مرکز کے قریب ترین ہے۔

بھارت کا معیاری وقت اس وقت مقرر کیا گیا تھا، جب اس قوم نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی لیکن شمال مشرقی صوبوں کے وزراء کا کہنا ہے کہ بھارت کے معیاری وقت کو تبدیل کیا جائے کیوں کہ موجودہ طریقے سے فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ایک سے زیادہ ٹائم زون ہونے چاہییں اور ان کا معیاری وقت ان کے قریبی علاقے ڈھاکا کے مطابق ہونا چاہیے، جو نئی دہلی سے تیس منٹ آگے ہے۔

گرمیوں میں بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں سورج مغربی ساحلی علاقوں کی نسبت 90 منٹ پہلے طلوع ہو جاتا ہے۔ آج کل شمال مشرقی علاقوں میں سورج چار بج کر پندرہ منٹ پر طلوع ہو رہا ہے جبکہ مغربی علاقوں میں سورج کے طلوع ہونے کا وقت چھ بج کر پندرہ منٹ ہے۔

معیاری وقت میں تبدیلی کے حق میں مہم چلانے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یکساں دفتری اوقات کے آغاز کی وجہ سے بھارت کے ان غریب ترین علاقوں کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہو رہی ہے جبکہ گھروں اور دفاتر کو بجلی کے اضافی بل ادا کرنا پڑ رہے ہیں جو کہ اربوں میں ہیں۔

معیاری وقت میں تبدیلی کے حق میں مہم چلانے والے آسام کے ایک مصنف اروپ کمار دتا کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یقینی طور پر اس سے توانائی ضائع ہو رہی ہے۔ کام کرنے کے لیے موجود گھنٹے ضائع ہو رہے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ایک انسان صبح کے وقت ترو تازہ ہوتا ہے لیکن اگر آپ دس بجے دفتر جائیں گے تو اس سے پہلے توانائی کا ایک حصہ ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘

دوسری جانب اس مہم کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بھارت کا معیاری وقت ملک کے اتحاد کی علامت ہے اور اسے قائم رہنا چاہیے کیوں کہ ان علاقوں میں پہلے ہی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ دوسری جانب مقامی وزراء نے یہ معاملہ پارلیمان میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔