1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

طالبان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے خواہاں ہیں

22 ستمبر 2021

 طالبان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کرنے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی اجازت طلب کی ہے۔ ادھر چینی اور امریکی صدر نے اپنے خطاب میں مذاکرات اور سفارت کاری پر زور دیا۔

https://p.dw.com/p/40dVK
Russland | Taliban Delegation in Moskau
تصویر: Sergei Savostyanov/TASS/dpa/picture alliance

اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت میں وزیر خارجہ عامر خان متقی نے پیر کے روز سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کی اجازت طلب کی گئی ہے۔ اس معاملے پر اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی جلد ہی فیصلہ کرے گی۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس بار طالبان کو شاید اس کا موقع نہ مل پائے۔

طالبان نے صدر اشرف غنی کے دور میں اقوام متحدہ کے لیے افغان سفیر غلام اسحاق زئی کو برطرف کر دیا تھا اور دوحہ میں مقیم اپنے ایک ترجمان سہیل شاہین کو اپنا نیا سفیر مقرر کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے غلام اسحاق زئی کو ابھی تک ہٹایا نہیں ہے اور انہوں نے بھی خطاب کے لیے درخواست دی ہے۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔

امکانات کیا ہیں؟

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفین جارک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کو طالبان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی، ''اعلی سطحی بحث میں حصہ لینے کی گزارش کی ہے۔''

ان کے مطابق اس مکتوب پر 20 ستمبر کی تاریخ درج ہے جو جنرل اسمبلی کے اجلاس شروع ہونے سے ایک روز قبل کی بات ہے۔ اسی خط میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ غلام اسحاق زئی اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں اور ان کی جگہ سہیل شاہین نئے سفیر مقرر کیے گئے ہیں۔

لیکن اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفین جارک نے یہ بھی بتایا کہ اس دوران سکریٹری جنرل کو غلام اسحاق زئی کی جانب سے بھی ایک خط ملا ہے جو پندرہ ستمبر کو لکھا گیا تھا اور اس میں انہوں نے بھی اقوام متحدہ سے خطاب کی بات کہی ہے۔ ترجمان کے مطابق اس معاملے پر ایک نو رکنی کمیٹی کو فیصلہ کرنا ہے کہ افغانستان کا حقیقی سفیر کون ہے۔ اس کمیٹی میں امریکا، چین اور روس جیسے ممالک شامل ہیں۔

Russland Afghanistan l PK der Anführer der Taliban-Bewegung in Moskau
تصویر: Tatyana Makeyeva/REUTERS

اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے اختتام سے قبل مذکورہ کمیٹی کی ملاقات اور فیصلہ ممکن نہیں ہے اس لیے غالب امکان اس بات کا ہے کہ اس بار بھی غلام اسحاق ہی شاید اس اجلاس سے خطاب کریں گے، جو سابق صدر عبد الغنی کی حکومت کے مقررہ کردہ سفیر ہیں۔

ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق غلام اسحاق زئی اجلاس کے آخری دن یعنی 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کر سکتے ہیں، حالانکہ طالبان کو یہ قطعی منظور نہیں ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ سن 1996 سے 2001 کے دوران جب طالبان افغانستان پر پہلی بار قابض ہو ئے تھے اس وقت جس حکومت کو انہوں نے برطرف کیا تھا اس کے سفیر کو اقوام متحدہ کا سفیر اس طرح برقرار رکھا گیا تھا کہ کمیٹی نے اس پر فیصلہ موخر کر دیا تھا۔

طالبان سے بات چیت جاری رکھی جائے، قطر

اس دوران قطر کے فرما روا شیخ تمیم بن حماد الثّانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اس بات زور دیا کہ دنیا کے تمام رہنماؤں کو طالبان سے رابطہ منقطع کرنے کے بجائے ان سے روابط بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ 

ان کا کہنا تھا، ''ان کا بائیکاٹ محض پولرائزیشن اور رد عمل کا باعث بنے گا، جبکہ بات چیت ثمر آور ثابت ہو سکتی ہے۔'' واضح رہے کہ قطر نے ہی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے گزشتہ برس امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا معاہدہ طے ہو پا یا تھا۔

جنرل اسمبلی میں کس نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76  ویں اجلاس کے آغاز پر حسب معمول سب سے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے خطاب کیا۔ بطور صدر جو بائیڈن کا یہ پہلا خطاب تھا جس میں انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کے بحران، ماحولیات کی تبدیلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے موضوعات پر بات چیت کی۔

New York UN Vollversammlung | Rede Präsident Joe Biden
تصویر: EDUARDO MUNOZ/REUTERS

انہوں نے دنیا کے دیگر رہنماؤں سے مختلف مسائل پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر زور دیتے ہوئے تنازعات کے حل کے لیے فوجی کارروائی کے بجائے سفارت کاری پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ''امریکا کوئی نئی سرد جنگ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جہاں کہیں بھی ضرورت پڑے گی امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو گا۔''

جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا، ''ہم دنیا بھر میں لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لیے اپنی ترقیاتی امداد کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نئے طریقوں سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے سفارت کاری کے جہد مسلسل کے ایک نیا دور کا آغاز کر رہے ہیں۔'' 

انہوں نے موسم اور ماحولیات کی تبدیلی پر کافی زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنی امداد دوگنا کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کا انتخاب کریں گے۔ ہم سب مل کر اسے بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب اس سمت میں مزید وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا۔''

چین کا بھی مذاکرات اور تعاون پر زور

چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کا ملک موجودہ عالمی تنازعات کو ''بات چیت اور تعاون سے حل کرنے کے لیے کثیرالجہتی نظریے کی تلاش میں ہے۔ ہمیں محاذ آرائی اور الگ تھلگ رکھنے کے بجائے مکالمے اور شمولیت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔''

شی جن پنگ نے بھی ماحولیات کی تبدیلی کے حوالے سے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ بھی گرین انرجی کے حصول میں غریب ممالک کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''دنیا اتنی بڑی ہے کہ تمام ممالک کی مشترکہ ترقی اور پیش رفت کو ایڈجسٹ کر سکتی ہے۔''

ترک صدر طیب ایردوآن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترکی بھی ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ہے۔ 

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

’طالبان کو دھمکیاں دے کر کام لینا بہت مشکل ہے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں