1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ’فِن ٹیکس‘ کمپنیاں بینکوں کی جگہ لے لیں گی؟

Krystek, Jessica / امجد علی11 اپریل 2016

فِن ٹیکس (فنانشل سروسز اینڈ ٹیکنالوجی) پیسے کے آن لائن لین دین کو زیادہ شفاف اور سستا بنانے کے عزم کے ساتھ میدان میں اتری ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ جلد ہی بینکوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کیا واقعی ایسا ہو گا؟

https://p.dw.com/p/1IT5C
Deutschland Deutschen Bank Symbolbild
تیرہ ملین گاہک رکھنے والا جرمن بینک ’ڈوئچے بینک‘ اپنے ہاں ڈیجیٹل سہولتوں کے فروغ کے لیے سن 2020ء تک ایک ارب یورو خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہےتصویر: Reuters/T. Melville

گیارہ اپریل کو جرمن بینکوں کی مرکزی تنظیم کی سالانہ کانگریس منعقد ہو رہی ہے۔ اس موقع پر دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ FinTechs (فنانشل سروسز اینڈ ٹیکنالوجی) یعنی مختصراً ’فِن ٹیکس‘ کہلانے والی اُن نئی کمپنیوں پر بھی بات ہو رہی ہے، جو بینکوں کے مقابلے میں زیادہ شفاف طریقے سے اور کم معاوضے کے عوض خدمات انجام دینے کے وعدے کے ساتھ میدان میں آ چکی ہیں۔

جرمنی میں اس طرح کی کمپنیوں کی مرکزی تنظیم کے نائب ترجمان اولیور وِنز کے مطابق ان کمپنیوں کے ہاں صارفین محض چند ایک کلِکس کی مدد سے قرضوں کی درخواست دے سکتے ہیں، گھر بیٹھے شیئرز کے کاروبار سے متعلق فیصلے کر سکتے ہیں یا پھر نہایت ہی آسانی کے ساتھ کسی دوسرے اکاؤنٹ میں پیسہ منتقل کر سکتے ہیں۔

’بینکوں کی ضرورت باقی رہے گی‘

جرمن شہر پاڈربورن کی اسی نام کی یونیورسٹی میں میڈیا اکانومی اور منیجیمنٹ کے پروفیسر ژورگ مُلر لیٹسکوو کے مطابق گو یہ نئی کمپنیاں صارفین کی انفرادی ضروریات کو بہت ہی کامیابی کے ساتھ پورا کر پا رہی ہیں لیکن یہ بینکوں کو ہٹا کر اُن کی جگہ نہیں لے سکیں گی۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ بینکوں کے گاہکوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اُن پر لوگوں کا اعتماد بہت زیادہ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہاں پیسے کے لین دین جیسے حساس معاملے میں لوگوں کو براہِ راست صلاح و مشورے کی سہولت میسر آتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ نئی کمپنیاں بھی اپنے کاروبار کے لیے کسی نہ کسی بینک کے ساتھ رابطے کی محتاج ہوتی ہیں۔

ایسی ہی نئی کمپنیوں میں سے ایک ’ٹرانسفر وائز‘ بھی ہے، جس کا خصوصی میدان رقوم کی بیرون ملک منتقلی ہے۔ اس کا ایک طریقہٴ کار یہ ہے کہ مثلاً جب کوئی شخص جرمنی سے کوئی مخصوص رقم امریکا بھیجنا چاہتا ہے تو یہ کمپنی امریکا میں کوئی ایسا صارف تلاش کرتی ہے، جسے اتنی ہی رقم جرمنی بھیجنا ہوتی ہے۔ یوں کرنسی کی منتقلی کے دوران تبادلے کی اُس وقت کی شرح سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ دوسری جانب بینک اس طرح کی منتقلی کے دوران عموماً اپنے صارف کو کرنسی کی ایسی شرحِ تبادلہ کے حساب سے ادائیگی کرتے ہیں، جس سے وہ نقصان میں رہتا ہے۔

Deutschland Oliver Vins vom Bundesverband Deutscher Startups
جرمنی میں فِن ٹیکس کمپنیوں کی مرکزی تنظیم کے نائب ترجمان اولیور وِنزتصویر: vaamo

’فِن ٹیکس‘ اور روایتی بینک قریب آتے ہوئے

دنیا بھر میں ’ٹرانسفر وائز‘ کے ملازمین کی تعداد چار سو ہے۔ یہ کمپنی رقوم کی منتقلی کے بدلے میں محض 0.5 فیصد بطور فیس وصول کرتی ہے جبکہ بینک اس سے چھ گنا زیادہ فیس وصول کرتے ہیں۔ درجنوں ملکوں میں خدمات فراہم کرنے والی اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ہر مہینے سات سو ملین یورو منتقل کرتی ہے اور یوں ایسے اکتیس ملین یورو بچاتی ہے، جو دوسری صورت میں بینکوں کی فیس پر خرچ ہو جاتے۔

دوسری جانب بینک بھی رقوم کی منتقلی کو صارفین کے لیے آسان اور سستا بنانے کے لیے اپنے روایتی ڈھانچوں میں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ تیرہ ملین گاہک رکھنے والا جرمن بینک ’ڈوئچے بینک‘ اپنے ہاں ڈیجیٹل سہولتوں کے فروغ کے لیے سن 2020ء تک ایک ارب یورو خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ’فِن ٹیکس‘ کمپنیاں اور روایتی بینک ایک دوسرے کے ساتھ اتنا زیادہ قریبی اشتراکِ عمل کرنا شروع کر دیں گے کہ بقول اولیور وِنز کے ’ان دونوں میں عملاً کوئی فرق ہی نہیں رہے گا‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید