1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا فریڈم پارٹی کی ممکنہ جیت مہاجرین کے لیے مسئلہ بنے گی؟

صائمہ حیدر
15 مارچ 2017

آج ہالینڈ میں عام انتخابات ہو رہے ہيں۔ اليکشن میں اگر مسلم اور مہاجرین مخالف فریڈم پارٹی کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا اثر رواں برس جرمنی اور فرانس کے انتخابی نتائج پر پڑنے کا بھی قوی امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZBhf
Niederlande Wahlplakate
ان عام انتخابات میں 28 جماعتوں کے ایک ہزار ایک سو چودہ امیدوار شرکت کر رہے ہیںتصویر: Reuters/M. Kooren

ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک رُٹے کی لبرل سوچ کی حامل پارٹی ’وی وی ڈی‘ عام انتخابات سے قبل ہونے والے عوامی جائزوں کے مطابق مقبولیت کے لحاظ سے سرِ فہرست تھی۔ اسلام اور مہاجرین مخالف رہنما گیئرٹ ولڈرز کی دائیں بازو کی عوامیت پسند فریڈم پارٹی ان جائزوں میں دوسرے نمبر پر رہی۔

ڈچ وزیراعظم رُٹے نے اپنی انتخابی مہم میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ  اُن کے ملک میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں عوام کو ’تسلسل يا تباہی‘ کے درمیان انتخاب کرنا ہو گا۔ رُٹے کے مطابق اگر عنانِ حکومت ولڈرز کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے تو وہ سخت فیصلے لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔

ولڈرز کی فریڈم پارٹی اگرچہ عوام میں پائے جانے والے مسلم و مہاجرین مخالف جذبات کی وجہ سے کافی حد تک مقبول ہو چکی ہے تاہم رُٹے کی لبرل جماعت سمیت ہالینڈ کی تمام مرکزی جماعتوں میں سے کوئی بھی ولڈرز کی جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کو تیار نہیں۔

تاہم انتخابی تجزیوں کی رُو سے کوئی بھی جماعت اکثریت سے کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی اور ہالینڈ میں مخلوط حکومت قائم ہونے کا ہی قوی امکان ہے۔ ولڈرز کے ایک صفحے پر مشتمل انتخابی منشور میں مسلم ممالک سے ہجرت کر کے آنے والے تارکینِ وطن کے لیے سرحدوں کی بندش، ملک میں قائم تمام مساجد کو ختم کرنے اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پر پابندی جیسے نکات شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اپنی انتخابی مہم کے دوران ولڈرز نے ہالینڈ کو یورپی یونین سے باہر نکالنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔

Niederlande Wahl
ہالینڈ میں آج قریب 13 ملین افراد اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گےتصویر: Reuters/M. Kooren

دوسری جانب انتخابی مہم کے آخری دنوں میں ترک اور ڈچ حکومتوں کے درمیان سفارتی اور سیاسی کشیدگی نے بھی جنم لیا۔ اس کشیدگی کی وجہ ترک وزیرِ خارجہ مولود چاؤش اولو کی ہالینڈ کے شہر روٹر ڈیم میں ترک شہریوں کے ایک اجتماع سے خطاب کی اجازت دینے سے انکار بنی۔

 اس انکار کے بعد  ترک حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے اگر وزیر خارجہ چاوش اولو نہیں تو خاندانی امور کی ترک خاتون وزیر فاطمہ بتول سایان کایا خطاب کریں گی۔ یہ ترک وزیر ہالینڈ پہنچ بھی گئی تھیں لیکن حکام نے انہیں بھی جلسے سے خطاب کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

 اس تمام معاملے سے  ڈچ عوام کو یہ تاثر ملا کہ رُٹے نے بیرونی دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے۔ مارک رُٹے کے اس موقف کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ترک ہالینڈ سفارتی بحران کے تناظر میں بات کرتے ہوئے رُٹے نے کہا، اپنی قوم کو محفوظ اور مستحکم رکھنا میری ذمہ داری ہے اور میں اس قسم کے لوگوں سے نمٹنا خوب جانتا ہوں۔‘‘

ہالینڈ میں آج قریب 13 ملین افراد اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان عام انتخابات میں 28 جماعتوں کے ایک ہزار ایک سو چودہ امیدوار شرکت کر رہے ہیں۔