1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا میں متنازعہ صدارتی نتائج کے بعد، پہلا پارلیمانی اجلاس

15 جنوری 2008

کینیا میں 27 دسمبر کے بعد پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوا ۔ 222 نشستوں والی پارلیمان کے اس اجلاس کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ اجلاس کے دوران ، نئی پارلیمانی اسپیکر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ ہونا تھی کہ جو ہنگامہ آرائی کی نظر ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/DYFT
تصویر: AP GraphicsBank/DW

آج کینیا کی دسویں منتخب پارلیمنٹ کے اجلاس کے موقع پر نیروبی میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ آج کے اجلاس میںملک کے صدر Mwai Kibaki اور اپوزیشن رہنما Raila Odinga کا دسمبر کے بعد پہلی مرتبہ کسی ایک جگہ پر آمنا سامنا ہوا۔ اس موقع پر دونو ں رہنماوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملایا۔ اپوزیشن جماعت Orange Democratic Movement کے تمام ممبران نارنجی رنگ کے رومال لے کر اسمبلی ہال میں موجود تھے۔ جو صدر Kibaki کے خلاف احتجاج کا ایک نیا طریقہ تھا۔ جیسے ہی اپوزیشن لیڈر Odinga ہال میں داخل ہوئے تو تمام اپوزیشن ممبران نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔

اجلاس جیسے ہی شروع ہوا فریقین نے ایک دوسرے پر ، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے۔ اس موقع پر دوسری جماعتوں کے ارکان کے مابین بھی سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ اجلاس کے دوران نئے اسپیکر کے لئے ووٹنگ ہونا تھی ، لیکن ووٹنگ شروع ہوتے ہی اسمبلی ہال میں صدر اور اپوزیشن کے حامیوں کے مابین تکرار شروع ہو گئی۔ اپوزیشن کے ممبران اس بات پر زرر دے رہے تھے کہ پارلیمان میں رائے دہی کا عمل خفیہ نہیں ہونا چاہیے، جبکہ حکومتی ممبرا ں کے اصرار تھا کہ ، رائے دہی کو روایت کے مطابق خفیہ رکھا جائے ۔ صورتحال کے پیش نظر قانون دانوں نے اپوزیشن کے اس مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے، ڈالے گئے ووٹوں کو سب کے سامنے ظاہر کرنا شروع کر دیا۔

اپوزیشن جماعت کے ایک رہنما William Ruto نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ صدر Kibaki صدارتی انتخابات کے نتائج میں پہلے ہی دھاندلی کر چکے ہیں اس لئے اب حکومت پر سے ہمارا اعتبار اٹھ چکا ہے۔ اپوزیشن ابھی تک Kibaki کو صدر ماننے پر تیار نہیں ہے۔ اور ان پر انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کرانے کا الزام عائد کرتی آ رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک میں اس نوعیت کا سیاسی بحران پیدا ہوا ہے۔ کینیا میں 27 دسمبر کے بعد سے شروع ہونے والے فسادات میں غیر سرکاری اعداد و شما کے مطابق 700 کے قریب ہلاک اور لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبورر ہو چکے ہیں ۔

ملک میں جاری س بحران کو ختم کرنے کی تمام تر عالمی کوپششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اب اس تنازع کو حل کرنے کے لئے تمام نظریں اقوام متحدہ کے سابق سیکیرٹری جنرل کوفی عنان پر لگی ہوئی ہیں۔ کوفی عنان آج کسی وقت بھی نیروبی پہنچنے والے ہیں۔ اس سے پہلے افریقی یونین کے سربراہ اور گھان کے صدر کی کینیا کے سیاسی بحران کو ختم کرنے کو کوششیں کی تھی او اسی سلسلے میں امریکہ کی افریقی امور کی اسسٹنٹ سیکریٹری Jendayi Frazer نے بھی صدر Kibaki اور اپوزیشن رہنما Odinga سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔ جس کے بعد Frazer نے کہا تھا کو کینیا کے رہنما عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ جس میں ں انتظامیہ بھی بھرپور طریقے سے شریک ہے۔