1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیڈا کی ہاکی ٹیم میں جنوبی ایشیائی کھلاڑی

6 جولائی 2010

کینیڈا کے مغربی ساحل کے قریب "وینکوور آئی لینڈ" نامی جزیرےکے ہاکی گراونڈ میں بڑی تعداد میں جنوبی ایشیائی نژاد لڑکیاں ہاکی کی پریکٹس کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/OBMD
تصویر: DW

ہاکی کی وجہ سے ڈنکن نامی اس قصبے کو پاکستانی پنجاب کے گوجرہ کا جڑواں قصبہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک جزیرے پرخوبصورت پہاڑی سلسلوں میں گھرے اس چھوٹے سے قصبے میں بھارتی اور پاکستانی تارکین وطن کی تعداد تو بہت کم ہے مگر ان کے بچوں کی بے پناہ دلچسپی نے کینیڈا میں ہاکی جیسے نظر انداز کھیل کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔

کینیڈا کے مختلف شہروں میں مقیم پاکستانی اور بھارتی تارکین وطن میں ہاکی کا کھیل بہت مقبول ہے۔ یاد رہے کہ 2008ء کے بیجنگ اولمپکس مقابلوں میں کینیڈین مردوں کی ہاکی ٹیم میں شامل چھ کھلاڑی بھارتی نژاد تھے۔

Gabbar Singh
بھارتی شہر بٹالہ سے تعلق رکھنے والے سکھویندر عرف گبر سنگھتصویر: DW

اس ٹیم کے کوچ لوئس مینڈونسا کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے، جو کِئی برس قبل کینیڈا آکر آباد ہوئے اور یہاں پر ہاکی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ لوئس نے بتایا کہ انھوں نے ہاکی کراچی کے گلی کوچوں میں سیکھی اور ان کو پاک بھارت ہاکی بہت پسند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اولمپکس میں کینیڈا کی نمائندگی پر فخر ہے۔ لوئس آجکل کینیڈا کی خواتین قومی ٹیم کے کوچ ہیں ۔ انہوں نے اس کھیل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور دیگر پہلووں کے بارے میں بتایا کہ کینیڈا کی قومی ٹیم میں زیادہ کھلاڑیوں کا تعلق بھی ان ممالک سے ہے جہاں ہاکی کا کھیل بہت مقبول ہے اور یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں پاکستانی اور بھارتی نژاد شہریوں نے اپنی بھرپور محنت کے بل بوتے پر ہاکی کے نظرانداز کیے جانے والے کھیل کو ایک بار پھر عالمی سطح پر نمایاں کر دیا ہے۔

وینکوور شہر کے رہائشی بھارتی شہر بٹالہ سے تعلق رکھنے والے سکھویندر عرف گبر سنگھ کو فخر ہے کہ کینیڈا میں ٹیکسی چلاتے ہوئے ان کا اولمپکس کھیلنے کا خواب پورا ہوا ہے۔ سن دو ہزار چار سے کینیڈین ٹیم کے رکن سنگھ محکمہ ء پولیس میں ملازم تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھارت میں سفارش نہ ہونے کی بناء پر قومی ٹیم میں شامل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے ان کا کافی وقت ضائع ہوا ہے۔

Lois Pakistani Coach
ٹیم کے کوچ لوئس مینڈونساتصویر: DW

پاکستانی تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد صوبے انٹاریو میں مقیم ہے ۔ اس صوبے کی مردوں کی ٹیم کے کوچ فل ہگنیل کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم میں جنوبی ایشیائی تارکین وطن خاندانوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وہ خود بھی پاکستان اور بھارت سے آنے والے بچوں کو ان ٹیموں میں مدعو کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سےبخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں ہاکی پسند کی جاتی ہے مگر حکومتی سطح پر نظر انداز کئے جانے کی شکایت انہیں بھی ہے۔

کینیڈا کی ہاکی ٹیم عالمی درجہ بندی میں گیارہویں نمبر پر ہے مگر فنڈنگ کی شکایت یہاں بھی ہے۔ اس وقت کینیڈا میں سات سو سے زائد جنوبی ایشیائی کھلاڑی ہاکی کھیل رہے ہیں اور ان میں سے پچاس کے لگ بھگ قومی و صوبائی سطح پر کھیلتے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کو حکومت مفت تعلیم اور پندرہ سو ڈالر ماہانہ وظیفہ دیتی ہے۔

رپورٹ : محسن عباس ، وینکوورآئی لینڈ

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید