1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیکڑوں کا کاروبار: میکسیکو کی خواتین ورکرز کا استحصال

24 جولائی 2010

واشنگٹن کالج آف لاء اور ’سینٹر فارمائگرینٹس رائٹس‘ کی ایک تازہ ترین رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ میں کیکڑوں کا کاروبار کرنے والے اداروں میں میکسیکو کی خواتین ورکرز کا استحصال ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/OSfs
تصویر: dpa

اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کیکڑے پکڑنے والی یہ غیر ملکی خواتین نہایت سخت ماحول میں کام کر رہی ہیں۔ نیز ان غیر ملکی کارکنوں کی وجہ سے اس صنعت میں امریکیوں کو مواقعے نہیں مل رہے ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں 34 خواتین کا انٹرویو کیا گیا۔ یہ تمام عورتیں میری لینڈ میں آباد ہیں اور کیکڑوں کا کاروبار کرنے والے اداروں کے لئے کام کرتی ہیں۔ میکسیکو سے تعلق رکھنے والی ان خواتین میں سے ایک Elisa Martinez اپنی امریکہ آمد اور اُس کے تجربات کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں’ میں 2000 ء میں میکسیکو سے H2B ویزہ لے کر امریکہ آئی تھی۔

Mexiko Krabben Wanderung Flash-Galerie
میکسیکو کے سمندری ساحل کانکن میں نیلے کیکڑے پائے جاتے ہیںتصویر: AP

یہ ویزہ مہمان کارکنوں یا گیسٹ ورکرز کو دیا جاتا ہے۔ میں کیکڑے پکڑنے کا کام ہی کرنے آئی تھی۔ کیونکہ ایک ایجنٹ نے کام اور رہنے کے لئے ایک خوبصورت مکان دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم آٹھ خواتین تھیں تاہم جب وہ امریکہ پہنچیں تودنیا ہی کچھ اور ہی تھی۔ مکان نا دارد۔ اور پھر ہم 8 عورتیں ایک چھوٹی سی کٹیا میں رہنے لگیں۔ وہ جگہ رہنے کے قابل ہی نہیں تھی۔ لگتا تھا کہ چوہوں اورکاکروچز کے مکان میں رہ رہے ہوں۔ اب ان خواتین کو ڈر ہے کہ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد ان کے لئے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

انہیں اور ان کے ساتھوں کو کیکڑوں کی صفائی کے بدلے میں معمولی سی اُجرت اور صاف کیا ہوا گوشت دے دیا جاتا ہے۔ چونکہ کیکڑوں کی پیداوار غیر یقینی ہے۔ اسی وجہ سے کئی کئی ہفتوں تک ان عورتوں کو کوئی کام نہیں ملتا اور ظاہر ہے کہ اُن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی۔ اس کا مطالب یہ ہوا کہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو رقم بھیج نہیں پاتی تھیں اور ان کا میکسیکو سے امریکہ آنا لا حاصل ثابت ہوتا تھا۔

Krabben Nordsee Flash-Galerie
بحیرہ شمال سے پکڑے جانے والے جھینگےتصویر: AP

Elisa Martinez کہتی ہیں کہ میکسیکو میں روزگار کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہ امریکہ آئی ہیں۔ تاکہ وہ اپنے گھر والوں کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس تصویر کا صرف ایک ہی رخ نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ میکسیکو کی خواتین سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور معاوضہ کم دیا جاتا ہے بلکہ اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہےکہ ان کی وجہ سے امریکی باشندوں کو روزگار نہیں مل پاتا۔ ایک لیبر یونین کے نمائندے ایڈی آکوسٹا کے مطابق یہ غلط ہے کہ میکسیکن وہ کام کرتے ہیں، جو ایک عام امریکی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان خواتین کے آنے کے بعد کیکٹروں کا کاروبار کرنے والے اداروں میں سیاہ فام امریکیوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

رپورٹ کے مطابق 2007ء میں میری لینڈ میں موجود 56 فیصد سی فوڈ کمپنیوں میں H2B ویزے والے گیسٹ ورکرز ہی کام کرتے تھے۔ اگر اب مزید گیسٹ ورکرز کے امریکہ آنے کا سلسلہ بند ہو جائے تو ان کمپنیوں کوشاید نقصان ہو گا۔ الیزا مارتینیز اور ان کی ساتھی خواتین اب جس کمرے میں رہتی ہیں وہاں انہیں چھ ڈالر یومیہ کرایا دینا پڑتا ہے۔ اور وہ بھی صرف اس دن، جس دن وہ کام کریں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت :عدنان اسحاق