1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گل پھنکے ہیں اوروں کی طرف، فلائروپ کے سو سال

Kishwar Mustafa23 ستمبر 2008

یہ جمالیاتی خیال سب سے پہلے سو سال قبل برلن کے ایک گل فروش Max Hübner کے ذہن میں آیاکہ پھولوں کے بجائے پھولوں کے آڈرز بھیجنے کا کاروبار کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/FNlN
فلائروپ۔ میڈ ان جرمنی


ہر سال دنیاء بھرمیں پچیس ملین لوگوں کو Fleurop,FTD یا انٹر فلورا کے ذریع پھولوں کا تحفہ ملتا ہے۔ یہ تمام ایک ہی سروس کے نام ہیں تاہم مختلف ممالک میں اسے مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے ۔ دنیا کے ایک سو پچاس ملکوں میں اس کمپنی کے زیر انتظام پچاس ہزار سے زائد گل فروشوں کا کاروبار چل رہا ہے۔ اور ان گل فروشوں کا کام ہے گلوں کے خوبصورت تحفے کو متعلقہ افراد تک پہنچانا ۔

Blumen Geschenk
فلاور شو لارنس گارڈن لاہورتصویر: DW

یہ جمالیاتی خیال سب سے پہلے برلن کے ایک گل فروش Max Hübner کے ذہن میں آیا اور آج سے کوئی ایک سو سال پہلے۔ انیس سو آٹھ میں ماکس ہیوبنر نے پھولوں کے بجائے پھولوں کے آڈرز بھیجنے کے کاروبار کو اتنی کامیابی سے شروع کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کاروبار دنیا بھر میں پھیل گیا۔ آج جبکہ ماکس ہیوبنر کے شروع کردہ اس پروجیکٹ کو سو سال کا عرصہ ہوگیا آج بھی لوگ انہیں بہت دل سے یاد کرتے ہیں۔ Heike Damerius اور انکے شوہر کی برلن میں دو دکانیں ہیں۔ ڈامیریوس کو اپنے کسٹمرز کے آڈرز کے مطابق گلدستوں کا تحفہ تیار کرنا اور اسے ڈیلیور کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پھولوں کے ذرٍیع وہ سب کچھ کہ دیتے ہیں جو وہ الفاظ میں کہنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ مثلاٍ پھولوں کے گلدستے بھیج کر اکثر لوگ شادی کا پیغام تک دے دیتے ہیں۔ اس سال ST.Patricks ڈے پر امریکہ سے ایک شخص نے برلن میں اپنی محبوبہ کو ایک بڑا خوبصورت گلدستہ بھیجا جس میں زیادہ تر سبز رنگ نمایاں تھا۔ ایک اور شخص نے اپنی دلرباء کے لئے ایک سو پینسٹھ گلاب بھجوائے۔ یہ علامت تھی انکے عہد و پیماء کے ایک سال مکمل ہونے کی۔ یہ واقع ایک انوکھا اظہار تھا۔

Das Schloss Sanssouci in Potsdam
جرمن شہر پوٹسڈام کا قصرسانسوزیتصویر: dpa

ہائیکے ڈامیریوس اور انکے شوہر کی آج جو روز مرہ زندگی کی روٹین ہے وہ ایک سو سال پہلے ایک انقلاب تھا۔ تب برلن کے گل فروش ماکس ہیوبنر کو ہر دوسرے تیسرے روزبرلن سے تقریباٍ تیس کلومیٹر کے فاصلے پر قائم جرمنی کے ایک اہم، تاریخی اور طبیعی، خوبصورتی سے مالا مال شہر پوٹسڈام جانا پڑتا تھا۔ وہاں قیصر ولہلم دوم کی Summer Residency یا موسم گرماں کی سرکاری قیام گاہ میں کام کرنے والی ایک خاتون کو انکے ایک چاھنے والے پھول بھیجا کر تے تھے۔ ماکس ہیوبنر کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بجائے تیس کلومیٹر کی ڈرائیو کر کہ پوٹسڈام تک جانے کے کیوں نہ وہ پوٹسڈام میں قیصر ولہلم کی سمر ریزیڈنسی کے نزدیک گل فروش جو کہ انکے دوست تھے، انہیں برلن سے یہ آڈر دے دیا جائے اور وہ ان خاتون تک گلوں کا یہ تحفہ پہنچا آئیں۔ اس طرح وہ جرمن خاتون پہلی خوش قسمت تھیں جنہیں پھولوں کا لطیف تحفہ کسی ڈلیوری سسٹم کے تحت حاصل کرنے کا موقع ملا۔

Blumenladen zu Valentinstag
پھولوں کی دکان میں ویلینٹائتز ڈےکی تیاریتصویر: AP

برلن سے پوٹسڈام تک یہ سہولت فراہم کرنے کا خیال شائد اتنا متاثر کن نہ لگے تاہم جرمنی سے امریکہ یا دیگر ممالک تک اس سروس کے ذریعے گلدستے بھیجنا واقع ایک انقلابی سوچ تھی۔ اس وقت ایک سو سال پہلے۔ اس وقت اس جرمن کمپنی Fleurop کے بورڈ کے چئرمین Niklas Dörr ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ Max Hübner گل فروشوں کی کواپریٹو کے چوٹی کے اہلکاروں میں سے ایک تھے۔ سن انیس سو آٹھ میں انکے پاس سوُ، یا تقریباٍ نواسی گل فروشوں کی ایک فہرست تھی جو پھولوں یا گلدستوں کے تحفے ڈیلور کرنے کے لئے ایک سروس کے قیام کے Idea یا خیال سے بہت خوش تھے۔ ان سب نے مل کر پھولوں کومتعلقہ پتوں تک پہنچانے کے باقائدہ بزنس کا آغاز کیا جو Fleurop کے نام سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔

Bdt Osterpyramiden auf Messe Cadeaux
پولوں کے ساتھ بھیجے جانے والے تحفےتصویر: picture-alliance/ ZB

پھولوں کے تحفے کی اہمیت بین ااقوامی ہے۔ ہر قسم کے حالات میں یہ اہمیت برقرار رہتی ہے۔ دونوں عالمی جنگوں کے دور میں گرچہ باغبانی اور گل فروشی کا کاروبار بہت متاثر ہوا تھا۔ پھر بھی ان جنگوں کے بعد Fleurope کے ذریع دنیا بھر میں پھولوں کو آڈرز کے ذریع بھیجنے کا رواج تیزی سے پھیلا۔ یہاں تک کہ اس سلسلے نے Iron Curtain یا آہنی پردے کی حدود بھی عبور کیں اور Fleurope سروس کے ذریع مشرقی اور مغربی جرمنی کے باشندے ایک دوسرے کو سرحد پار بھی پھولوں کا تحفہ بھیج سکتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس وقت مشرقی اور مغربی جرمن باشندے پھولوں کی ڈیلیوری کی قیمت کی آدائیگی اپنی اپنی کرنسی یعنی جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک جی ڈی آر کے مارک اور فیڈرل ریپبلک آف جرمنی اف جی آر کے ڈوئچے مارک کو ایک کے مقابلے میں ایک مارک کے ریٹ کے حساب سے ادا کیا کرتے تھے۔

اس وقت کے مقابلے میں اب تحفے دینے کے انداز میں تبدیلی رونماء ہوئی ہے تاہم پھول جرمنی اور بہت سے مغربی معاشروں میں تحفے کا ایک لازمی جز ہیں۔ اور اب تو یہ جرمنی میں آباد جنوبی ایشیائی باشندوں کا بھی معمول بن گیا ہے ۔

BdT Blumenstrauß zum Valtentinstag für Berberaffen
جرمن شہر نوئے مونسٹر کے باغ حیوانات میں ایک بندمانوس کو ویلینٹائنز ڈے پر گلدستے کا تحفہ دیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance / dpa/dpaweb


Fleurope جرمنی کے بورڈ کے چئرمین Niklas Dörr نے اپنے اس کارویار کے ایک نئے ٹرینڈ کا زر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تبدیلی ہے جسے محسوس کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کمپنی کو گفٹ ایکسپرٹ کے طور پر پیش کرنے کی حکمت عملی وضح کی۔ اس طرح پھول یا گلدستے ہمیشہ انکے کاروبار کا مرکز رہیں گے تاہم اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اضافی تحفے بھی ڈیلیور کرنے کا فیصلہ کیا۔ مثلاٍ چوکلیٹس، ٹیڈی بئیر یا مشروب کی بوتل:

Blumen Geschenk
لاہور کے لارنس گارڈن میں پھولوں کی نمائشتصویر: DW

ڈیور اور انکی اہلیہ ہائی کے ڈامیرئیوس کی برلن میں قائم پھولوں کی دکان سے ہونے والی آمدنی کا بیس فیصد Fleurop کے آڈرز پر مُشتمل ہے۔ یہ دونوں اپنا زیادہ تر منافع روزمرہ کی پھولوں کی فروخت سے کماتے ہیں۔ اور انکے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ Fleurop دکان پر انکا ایک سینٹ بھی اضافی خرچہ نہیں آتا۔ ڈامیریوس کا کہنا ہے کہ اگربی الفرض Fleurop کے آڈرز میں کمی بھی آجائے تب بھی وہ یہ سروس جاری رکھیں گی۔

کیونکہ انکا ماننا ہے کہ انکی یہ سورس صارفین کے لئے ہے۔ اور انھوں نے اپنی دکانوں کا معیار بلند رکھنے کے لئے ایک خصوصی اسٹار پروگرام شروع کیا ہے۔ تاہم پھولوں کی دکان ہی محض ڈیلیوری آرڈرز کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ Fleurop کے نکلاس ڈیوور کا کہنا ہے کہ انٹرنٹ نے انکے بزنس کو چار چاند لگا دیا ہے۔

Rosen zum Valentinstag
ہمبرگ کے پھولوں کے بازار سے سرخ گلابوں کی خریداریتصویر: PA/dpa

انکی آن لائن شاپ بھی ہے، Fleurop.de یہ جرمنی کی سب سے پر کشش شاپ ہے اس کے ذریع بُک کیے جانے والے آڈرز کی تعداد دیکھی جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ انٹرنٹ صارفین میں زیادہ تعداد مردوں کی ہے۔ جبکہ یوں مجموعی طور پر کسٹمرز میں پچاس فیصد مرد اور اتنی ہی خواتین شامل ہیں۔ تاہم پھولوں کا تحفہ وصول کرنے والی زیادہ تر عورتیں ہوتی ہیں:

وقت کافی تیزی سے بدلتا جا رہا ہے تاہم نکلاس ڈیور کا کہنا ہے کہ سو سال قبل جب Fleurop کے ڈیلیوری سسٹم کے تحت برلن اور پوٹسڈام کا پہلا رومینس شروع ہوا اس سے ابتک گلوں کے تحائف بھیجنے کی وجوہات وہی چلی آرہی ہیں۔

انکے مطابق، پھول بھیجنے کا سب سے اہم موقع سالگرہ ہوتا ہے۔ اور اسکے علاوہ پھولوں کا تحفہ ہمیشہ محبت، جذبات اور صرف اور صرف محبت کے اظہار کے لئے ہوتا ہے۔

Deutschland Köln Melaten Friedhof Grab mit Blumen
قبروں کو بھی پھولوں سے سجایا جا سکتا ہے۔شہر کولون کا قبرستانتصویر: Calbuquerque

جہاں جرمنی میں اس سال فلاورز ڈیلیوری سروسFleurop کے قیام کے ایک سو سال مکمل ہونے پر خوبصورت تقاریب کا انعقاد ہو رہا ہے وہاں پاکستان میں اس سال ہورٹی کلچر سوسائٹی کے زیر اہتمام پھولوں کی نمائش کے سالانہ سلسلے کے ڈیڑھ سو سال مکمل ہونے پر رنگا رنگ پروگرام منعقد ہوئے۔ ہورٹی کلچر سوسائٹی پاکستان کی ایک چوٹی کی نمائندہ نوشین سرفراز کا کہنا ہے کہ دنیا کے بہت ہی کم ممالک میں پھولوں کی نمائش کا سلسلہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پا کستان میں۔