1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گنٹر گراس کی ذاتی ڈائری پر مبنی تازہ کتاب

امجد علی19 فروری 2009

نوبیل انعام یافتہ ممتاز جرمن ادیب گنٹرگراس کی تازہ ترین کتاب اُن کی اُس ڈائری کے مندرجات پر مشتمل ہے، جو اُنہوں نے تقریباً بیس سال پہلے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے دنوں میں تحریر کی تھی۔

https://p.dw.com/p/Gvz0
نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب گنٹر گراستصویر: picture-alliance / dpa

بیس سال پہلے دیوارِ برلن کا انہدام جرمن تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس دَور میں ممتاز جرمن ادیب گنٹر گراس باقاعدگی کے ساتھ اپنی ڈائری لکھتے رہے، جس میں وہ جنوری 1990ء اور فروری 1991ء کے دوران ہونے والے تجربات کو ضبطِ تحریر میں لاتے رہے۔ گراس کی تازہ ترین کتاب اِسی ڈائری کے مندرجات پر مشتمل ہے اور اِس کا ٹائیٹل ہے، ’’جرمنی سے جرمنی کی طرف محوِ سفر‘‘۔

Deutschland Literatur Günter Grass Buch Die Box im Buchhandel
گنٹر گراس کی چھ ماہ پہلے شائع ہونے والی آپ بیتی’’دی بکس‘‘ کا سرورقتصویر: AP

اِس کتاب کے چِیدہ چِیدہ اقتباسات اِس بزرگ ادیب نےفروری کے پہلے ہفتے میں جرمنی کی مشہور گوئٹنگن یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب میں پڑھ کر سنائے۔ کتاب کی تعارفی تقریب میں تقریباً نو سو حاضرین موجود تھے، جن کی بڑی تعداد طلبہ پرمشتمل تھی۔

کمیونسٹ مشرقی جرمنی یعنی سابقہ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک اور مغربی جرمنی یعنی وفاقی جمہوریہء جرمنی جس طریقے سے دوبارہ ایک ہوئے، گنٹر گراس ہمیشہ اُس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

گراس اُن ادیبوں میں سے نہیں ہیں، جو جوش و خروش کے ساتھ روزانہ ڈائری لکھتے ہیں۔ یہ کام وہ تبھی کرتے ہیں، جب کوئی بہت ہی غیر معمولی واقعہ رونما ہو رہا ہو۔ چنانچہ ڈائری اُنہوں نے 1969ء میں بھی لکھی، جب وہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے لئے انتخابی مہم میں شریک ہوئے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے 1990ء میں دیوارِ برلن گرنے کے فوراً بعد بھی ڈائری لکھنا شروع کی۔ اِس میں نہ صرف اُنہوں نے اُس وقت کے سیاسی حالات و واقعات کو ہدفِ تنقید بنایا بلکہ مشرقی جرمن صوبوں کے معاشی زوال کی پیشین گوئی بھی کی۔

Günter Grass auf der Insel Mön
گراس ڈنمارک میں اپنی موسم گرماکی رہائش گاہ پر اپنی ہی ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/ dpa

فروری کے اوائل میں گوئٹنگن میں منعقدہ تقریب میں گراس ڈیڑھ گھنٹے تک اپنی اِس کتاب میں سے اقتباسات پڑھ کر سناتے رہے: ”مغربی جرمن سرمایہ کار جب جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی فیکٹریوں اور کارخانوں کا معائنہ کرتے ہیں تو وہ صرف اُس سے حاصل ہونے والی آمدنی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نئے صوبوں کا انتظام چلانے کے لئے مغربی جرمنی سے انتظامی امور کی مہارت رکھنے والے ماہرین کا ایک ریلا متوقع ہے۔ نوآبادکار افسران۔ ڈیموکریٹک ری پبلک کے باشندے ایک بار پھر دھوکہ کھائیں گے۔ “

اِن اقتباسات سے پتہ چلتا ہے کہ گراس اُنیس سو نوے کی دُنیا کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ تب وہ دونوں جرمن ریاستوں کے پھر سے اتحاد کے حوالے سے مایوسی کا شکار تھے۔ تاہم یہ کوئی تاریخی تجزیہ نہیں بلکہ صرف ایک روزنامچہ ہے، روزانہ کی ڈائری۔

Grass präsentiert neues Buch 2
گنٹر گراس فروری کے اوائل میں گوئٹنگن یونیورسٹی میں اپنی کتاب میں سے اقتباسات پیش کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance / dpa

چنانچہ جہاں وہ سیاسی واقعات بیان کرتے ہیں، وہاں اُن کے بے شمار ذاتی تبصرے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تب کے حالات کے بارے میں گراس کا نقطہء نظر آج بھی نہیں بدلا۔ وہ کہتے ہیں: ”1990ء میں ہم نے جو کچھ دیکھا، قرض لے کر جرمن اتحاد جو ہم نے حاصل کیا، وہ مقروض ہونے کا آغاز تھا، جو آج تک چلا آ رہا ہے۔ سوویت یونین ختم ہونے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کا جو چلن تھا، تبھی وہ ساری علامتیں نظر آنا شروع ہو گئی تھیں، جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔“

ایک اور مشہور جرمن ادیب مارٹن والسر نے بھی ڈائری لکھی اور چیزوں اور حالات و واقعات کو بھرپور طریقے سے بیان کیا۔ ممتاز ادیب پیٹر ریوہم کورف نے بھی "نوٹاٹے" کے عنوان سے اپنے روزنامچے شائع کئے، جن میں وہ طنز کے انداز میں اپنی ذات پر تنقیدی تبصرے کرتے ہیں۔ یہ چیز اِن روزنامچوں کو قابلِ مطالعہ بناتی ہے۔ تاہم گراس اپنی کتاب میں زیادہ تر اپنے ہی معاملات میں اُلجھے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ زیادہ تر ایک ناقد اور انتباہ کرنے والے کے طور پر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اِس کتاب کے سیاسی حصے پڑھنے میں پھیکے لگتے ہیں۔ کتاب میں لیکن دلچسپی کا عنصر پھر بھی موجود ہے کیونکہ وہ اپنے خاندان، اپنے بچوں سے پیار کرنے والی شخصیت کے روپ میں نظر آتے ہیں۔