1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوجرہ فسادات: ملوث سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمہ درج

3 اگست 2009

پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرہ میں مسلم عیسائی جھگڑوں سے شروع ہونے والے پر تشدد واقعات میں سات افراد کی ہلاکت کے بعد ان پر تشدد واقعات میں ملوث سات سو سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/J2ZQ
تصویر: AP

مسیحی برادری کی طرف سے دی گئی درخواست پر 20 نامزد اور 700 سے زائد نا معلوم افراد کے خلاف قتل، اقدام قتل، دہشت گردی اور دیگر الزامات کے تحت ایف آئی۔ آر درج کر لی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر اورضلعی رابطہ افسر کےخلاف بھی فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یا د رہے کہ ہفتے کے روز مسلم عیسائی جھگڑوں سے شروع ہونے والے پر تشدد واقعات میں 7 مسیحی افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دو پولیس اہلکاروں سمیت 19 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

گوجرہ شہر میں پر تشدد واقعات کے بعد صورتحال ابھی تک کشیدہ ہے اور شہر کو رینجرز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ مسیحی برادری کی طرف سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ اس افسوس ناک واقعے میں ہلاک ہونے والے مسیحی افراد کے ورثاء نے ریلوے ٹریک پر احتجاجی دھرنا دیا۔ گوجرہ شہر میں اب بھی کاروباری زندگی معطل ہے اور سڑکوں پر رینجرز کے دستے گشت کر رہے ہیں۔ پولیس نے ایک سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ان پر تشدد واقعات کے حوالے سے مقامی مسلمان اور عیسائی آبادی کی اپنی اپنی رائے ہے۔ گوجرہ کے مسلمان رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پر تشدد واقعات مسیحی برادری کے کچھ لوگوں کی طرف سے قرآن کی بے حرمتی کئے جانے کے بعد شروع ہوئے جبکہ مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان عالم دین کی ایک قابل اعتراض تقریر کے بعد حالات خراب ہوئے۔

صدر آصف علی زرداری نے گوجرہ کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو امن و امان کی صورت حال کی یقینی بحالی کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ صدرنے وفاقی وزیربرائے اقلیتی امور شہبازبھٹی کو حالات معمول پر آنے تک گوجرہ میں رہ کر لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی نگرانی کی بھی ہدایت کی ہے۔ صدرآصف علی زردراری کی طرف سے ان پر تشدد واقعات میں ہلاک ہونےوالے ورثا ء کے لئے پانچ پانچ لاکھ روپےکی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ ادھر پنجاب حکومت نے بھی ان لواحقین کے لئے پانچ پانچ لاکھ روپے کی امدادی رقوم کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے اتوار کے روز اس سانحے میں املاک کے نقصان کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔

گوجرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے بتایا کہ گوجرہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ رو نما نہیں ہواہے ۔ان کے مطابق اس بے بنیادبات کوجواز بناکر بےگنا ہ افراد کو جلایا گیا۔ گوجرہ میں ہی موجود صوبائی وزیر قانون رانا ثنا ء اﷲ نے کہا ہے کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائےگی اور اس واقعے کو ایسی مثال بنایا جائے گا کہ جس کے بعد کوئی شخص صوبے کے کسی دوسرے حصے میں اس طرح کی حرکت دوبارہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔

ایک مسیحی شخص الماس حیدرنے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس کے خاندان کےافراد اس افسوس ناک سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیبر پارٹی پاکستان کے مقامی رہنما محمدشبیر نے کہا اگر انتظامیہ بروقت کارروائی کرتی تو اس سانحے کی نذر ہونے والے بے گناہ لوگوں کوبچایا جا سکتا تھا۔گوجرہ شہر سے تعلق رکھنے والے بیشتر مذہبی رہنما گرفتاریوں کے خوف سے پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کسی نا معلوم مقام سے ڈوئچے ویلے سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے گوجرہ کے ایک مذہبی رہنما نے بتایا کہ اس وقت حکومت ذرائع ابلاغ کے دباؤمیں ہے۔ اور وہ اس دباؤ کے تحت ناجائز طور پر معصوم لوگوں کو ان واقعات میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے ان واقعات کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرانے اور ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ حکومتی وزراء کا یہ بیان صحیح نہیں ہے کہ گوجرہ کے نواحی گاؤں میں شادی کی ایک تقریب میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کی بے حرمتی نہیں کی گئی۔

مبصرین کے مطابق اگر اس صورتحال کو حکمت سے کنٹرول نہ کیا جا سکا تو مسلم عیسائی جھگٹرے دوسرے علاقوں تک بھی پھیل سکتے ہیں۔

رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور

ادارت : عاطف توقیر