گھر ثواب، باہر عذاب: ناروے کی منافقت
17 اگست 2017پیرس کلائمیٹ ڈیل کے بعد ناروے کی حکومت نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے حوالے سے عالمی سطح پر خاصی آواز بلند کی تھی اور اب اسی ملک کی حکومت بحر منجمد شمالی میں تیل اور گیس کی تلاش کرنے کے مزید پلانٹس قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر توسیع کا سلسلہ جاری رہا تو یہ یقینی طور پر پیرس ڈیل کا مذاق اور اس کے منافی اقدام ہو گا۔
’یوم ارض‘ اس مرتبہ خاص کیوں ہے؟
جنگلی حیات کی بقاء کے لیے امریکی فیصلے
دھرتی اور اُس کے خزانے تباہ کئے جا رہے ہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف
دنیا بھر کے رہنما ’عالمی ماحولیاتی معاہدے‘ کے لیے کوشاں
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سالانہ ماحولیاتی کانفرنسوں میں ناروے کو اپنے ملک میں جاری پالیسیوں کی بنیاد پر خاصا پسند کیا جاتا تھا لیکن منجمد براعظم میں تیل اور گیس کے حصول کے پلانٹس اور تلاش کے عمل میں توسیع کو اُس کے ماحول دوست ہونے کے منفی عزائم سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ناروے نے اعلان کر رکھا ہے کہ ملک میں سن 2030 میں کاربن اخراج زیرو سطح پر پہنچا دیا جائے گا۔
امریکی ادارے کی رپورٹ کے لیے تفصیلات ’فرینڈز آف ناروے نامی تنظیم نے فراہم کی تھیں۔ اس ادارے سے منسلک سیلییا اسک لُنڈبیرگ کا کہنا ہے کہ یہ ملک اپنے جغرافیائی حدود میں زمین سے حاصل ہونے والے ایندھن کے استعمال میں کمی ضرور لا رہا ہے لیکن آرکٹک میں ہر پلانٹ کے قیام کی اجازت حقیقت میں پیرس کلائمیٹ ڈیل کے منافی ہے۔
ناروے کی آرکٹک میں تیل اور گیس تلاش کرنے کی پلاننگ اور پہلے سے قائم پروڈکشن ہاؤسز کی تفصیلات امریکی دارالحکومت میں قائم ریسرچ ادارے آئل چین انٹرنیشنل نے جاری کی ہیں۔ اس ادارے نے ناروے کو اپنے رپورٹ کو غلط ثابت کرنے کا چیلنج بھی کیا ہے۔ ادارے کے مطابق اوسلو حکومت آرکٹک کے شمالی سمندری علاقے میں جو تیل تلاش کے عمل کو وسعت دے رہی ہے، اور یہ ملک کے اندر کاربن اخراج کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ ناروے ان پلانٹس کی وجہ سے دنیا کا پندرہواں بڑا گیس سپلائی کرنے والا ملک ہے۔