1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’گھر چھیننے کی حکومتی مہم’

15 جنوری 2022

اس وقت پاکستان میں یہ افواہیں پھیل رہی تھیں کہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے پاکستان کو مسلمانوں سے بھر کر غیر مستحکم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/45a3N
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

ہندوستان میں اقلیت کے طور پر رہنے کے بعد، تقسیم سے پہلے کے سالوں میں بہت سارے لوگوں نے اپنی مسلم شناخت پر زیادہ زور دیا تھا۔ انہیں امید ہو چلی تھی جب وہ اپنے تصور کردہ مثالی ملک پاکستان جائیں گے تو انہیں محض مسلمان ہونے کی وجہ سے گھر اور نوکریاں ملیں گی۔ یہاں سے بڑھ کر وہاں عزت ہو گی لیکن کہانی حقیقت میں ڈھلی تو انہوں نے خود کو کراچی کے مہاجر کیمپوں میں پایا۔

 جو لوگ مسلم شناخت کی بات کر رہے تھے، ان کے حصے میں لے دے کر مہاجر شناخت آئی۔ انہیں علم نہیں تھا کہ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک میں مسلم شناخت کے اب کوئی اضافی نمبر نہیں ملیں گے۔

دسمبر 1947 تک کراچی، جو پچھلی دو صدیوں سے ہندو اکثریتی شہر تھا، محض چار مہینوں میں مکمل طور پر مسلمانوں کے زیر تسلط آ گیا۔

 جولائی 1947 کو سندھ مسلم لیگ کے صدر یوسف ہارون نے ایک عوامی بیان دیا تھا کہ وہ اگلے چھ مہینوں میں تقریباً 23,000 مہاجرین کی سندھ آمد کی توقع رکھتے ہیں، جن کے لیے دیگر امدادی منصوبہ جات کے ساتھ ساتھ گھر تلاش کرنا بھی مشکل ہو گا۔

  ستمبر کے وسط تک صرف کراچی میں تقریباً 500 مہاجر یومیہ کی شرح سے آ رہے تھے۔ شہر میں پہلے ہی 11,000 مہاجر تھے، سال کے آخر تک یہ تعداد تقریباً 3,00,000 تک پہنچ گئی۔

 مسلمان پناہ گزین نہ صرف مشرقی پنجاب سے بلکہ شمالی ہندوستان کے دیگر مختلف حصوں سے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ اکتوبر 1947 کی ابتدا میں لاہور میں ایک انٹر ڈومینین کانفرنس میں، پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایک عوامی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان صرف مشرقی پنجاب سے پناہ گزینوں کو لینے کے لیے تیار ہے۔

اس وقت پاکستان میں یہ افواہیں پھیل رہی تھیں کہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے پاکستان کو مسلمانوں سے بھر کر غیر مستحکم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

جب لیاقت علی خان نے اس 'سازش' کے خلاف عوامی سطح پر تحفظات کا اظہار کیا اور صرف پنجابی مہاجرین کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو اس سے فطری طور پر مسلمانوں میں ایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہوا اور انہیں لگا کہ یہ پاکستان کے تصور کے بالکل خلاف ہے۔

لیاقت علی خان کو فوری طور پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے اس بیان کی وضاحت کریں اور کہیں کہ دراصل ان کے بیان کا غلط حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے 'واضح' کیا کہ ان کا کہنا تھا کہ ' پاکستان کسی بھی مسلمان آباد کار کو پناہ دینے سے انکار نہیں کرے گا، لیکن اسے مشرقی پنجاب سے باہر ہندوستان میں مسلمانوں کے گھروں اور جائیدادوں کو ترک کرنے کے لیے کسی بھی طرح سے انکار کرنا چاہیے'۔

جنوری 1948 کے آخر میں، مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے کابینہ کا اجلاس ہوا۔ جب 5,00,000 مزید مہاجروں کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو محمد ایوب کھوڑو، جو اس وقت صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے، نے دعویٰ کیا کہ سندھ مزید مہاجرین کو قبول نہیں کر سکتا۔ ان کے اس رویے پر کھلے عام تنقید کی گئی۔

اس سب سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے وقت پاکستانی حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں تھا۔ غالبا یہ خیال تھا کے یہ بٹوارہ محض پنجاب تک محدود رہے گا، اس وجہ سے سندھ اور دیگر صوبوں کے لیے حکومت پاکستان کے پاس ایسے لوگوں کو زمین فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا، جنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔

 اس کا انجام یہ نکلا کہ جب 1947 میں پاکستان وجود میں آیا تو کراچی کی آبادی چار لاکھ تھی جبکہ1951 تک اس میں 10 لاکھ کا اضافہ ہو گیا۔

مہاجرین کی ایک اور لہر 70 کی دہائی میں آئی، جب پاکستان نے اپنا مشرقی حصہ کھو دیا۔ حکومت پاکستان کے پاس پھر کوئی منصوبہ نہیں تھا اور یہ بوجھ پھر کراچی پر ڈال دیا گیا۔ حکومت کی اس ناکامی کی وجہ سے غیر قانونی اور عارضی بستیاں وجود میں آئیں اور وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

پچاس- ستر سال بعد جب ان غریب الدیار لوگوں نے ان زمینوں پر گھر بنا لیے ہیں تو سسٹم کو پریشانی ہو گئی۔ گویا سسٹم یہ کہہ رہا ہو کہ تم مہاجر ہو، تمہیں سکون سے چار دیواری میں رہنے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟

ایک بار پھر ان لوگوں کو بے گھر کرکے ہجرت در ہجرت کی اذیت سے گزار جا رہا ہے۔ وبا کے دنوں میں جہاں دوسرے ملکوں کی حکومتیں اپنے شہریوں کو ریلیف دے رہی ہیں وہاں ہماری حکومت فکرمند ہو گئی ہے کہ دیکھو خدا نخواستہ کسی انسان کو سہولت تو نہیں مل گئی۔

جہاں کسی کو سہولت میں دیکھو فورا چھین لو۔ اسی منصوبے کے تحت وہ اپنے شہریوں سے چھت کی سہولت بھی چھیننے میں جت گئی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں