1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھوٹکی مندر میں توڑ پھوڑ پر پاکستانیوں میں غم و غصہ

شمشیر حیدر روئٹرز کے ساتھ
16 ستمبر 2019

سندھ میں توہین مذہب کے الزام کے بعد ہنگامہ آرائی اور ایک مندر میں توڑ پھوڑ کی خبر پر قومی میڈیا خاموش لیکن سوشل میڈیا متحرک نظر آیا۔

https://p.dw.com/p/3PfJx
Pakistan Mithi | Toleranz für hinduistische Religion
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

یہ واقعہ اتوار کے روز صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی میں پیش آیا۔ ایک اسکول کے طالب علم نے اپنے ہندو استاد اورپرنسپل پر پیغمبر اسلام کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا۔ طالب علم کے والد کی شکایت پر پولیس نے ایف آئی آر درج کر کے استاد کو گرفتار کر لیا۔

تاہم اس دوران مشتعل ہجوم اس اسکول اور اس کے قریب واقع ایک مندر پر حملہ آور ہوا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔ ضلعی پولیس کے سربراہ فرخ علی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پولیس نے پرنسپل کو حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے اور مبینہ توہین مذہب کے معاملے کے ساتھ ساتھ ہنگامہ آرائی سے متعلق بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے فرخ علی کا کہنا تھا، ''بظاہر یوں لگتا ہے کہ (پرنسپل) نے دانستہ طور پر کچھ نہیں کیا۔‘‘

مقامی میڈیا کے مطابق مندر پر حملہ کرنے والے درجنوں افراد کے خلاف بھی توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین ہیں اور جرم ثابت ہونے پر سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔ تاہم زیادہ تر واقعات میں توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے افراد الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی  قتل کر دیے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردِ عمل

ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ گھوٹکی اور میاں مٹھو ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی اس واقعے پر لوگ تبصرے کر رہے ہیں۔ ٹوئٹر پیغامات میں ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں جن میں گھوٹکی کے مندر میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور لاٹھیاں اٹھائے مشتعل ہجوم دیکھا جا سکتا ہے۔

مکیش میگوار نامی ایک پاکستانی ہندو نے پوچھا، ''ایک بات پوچھوں مارو گے تو نہیں؟ مندر توڑنے والوں، مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرنے والوں پر بھی توہین (مذہب) کا مقدمہ ہو گا؟‘‘

صحافی ثنا بُچہ نے ٹوئیٹ کیا، ''گھوٹکی میں عبادت گاہ نہیں گری، ریاست پہ شہریوں کا اعتماد مسمار ہوا ہے۔‘‘

علیزہ انصاری نے مندر میں کی گئی توڑ پھوڑ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ''آپ یوں ایک مقدس مندر میں توڑ پھوڑ نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو توہین مذہب کے قوانین کا جائزہ لینا چاہیے۔‘‘ گیتیکا سوامی نامی ایک بھارتی خاتون نے بھی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ''پاکستان اپنے ہاں مذہبی اقلیتوں کو یوں تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘‘

پاکستان میں ہندو مذہب کے تعلق رکھنے والے شہریوں کی تعداد مجموعی آبادی کا قریب دو فیصد بنتی ہے جن کی اکثریت سندھ میں آباد ہے۔ ماضی میں ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کو تبدیلی مذہب پر مجبور کیے جانے کے بھی کئی واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ایسے واقعات میں بھی میاں مٹھو کا نام سامنے آتا رہا ہے۔

میاں مٹھو آج کل پاکستان تحریک انصاف کا ہیں۔ گھوٹکی واقعے کے تناظر میں ان کی وزیر اعظم عمران خان اور جنرل باجوا کے ساتھ پہلے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان پر تنقید کی جا رہی ہے۔

بھارت سے ریٹائرڈ میجر گوارو آریا نے الزام عائد کیا، ''میاں مٹھو نے مشتعل ہجوم کی قیادت کی۔‘‘

ندیم بزدار نے پوچھا، ''اگر خادم رضوی گرفتار ہوسکتا ہے تو گھوٹکی کا امن خراب کرنے والے میاں مٹھو اور ان کے بیٹے کیوں نہیں؟‘‘