1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیارہ نومبر کا تاریخی دن، شادی چند ہی منٹوں میں ناکام

18 نومبر 2011

دنیا کے بہت سے دیگر افراد کی طرح بنگلہ دیش کے ایک شہری شوکت خان نے گیارہ نومبر کو گیارہ بج کر گیارہ منٹ پر شادی کی لیکن یہ شادی چند ہی منٹوں میں ناکام ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/13Cpd
تصویر: Shulekha Chaudhury

ڈھاکہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق شوکت خان کا خیال یہ تھا کہ گیارہ ایک ایسا عدد ہے جو اس کے لیے خوش قسمتی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا اس نے اپنی شادی کا وقت بھی اس مہینے کی گیارہ تاریخ کو گیارہ بج کر گیارہ منٹ رکھا۔

لیکن اس بنگلہ دیشی شہری کی اپنی نو بیاہتہ دلہن کے ساتھ ساری عمر گزارنے کی امیدیں اور خواہشیں اس وقت دم توڑ گئیں جب فرزانہ یاسمین نامی دلہن شادی کی تقریب سے نکاح کے کچھ ہی دیر بعد یکدم اس طرح رخصت ہو گئی کہ وہ آج تک لوٹی ہی نہیں۔

---
تصویر: DW/AP/RCsolutions - Fotolia.com

بتیس سالہ شوکت خان ایک اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہے اور فرزانہ یاسمین کی عمر 27 برس ہے۔ خان کے بقول اسے یہ علم نہیں کہ فرزانہ شادی کے تھوڑی ہی دیر بعد مہمانوں سے بھری اس تقریب سے رخصت کیوں ہو گئی۔ لیکن فرزانہ کا کہنا ہے کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ اس بات پر شدید ناراض تھی کہ شوکت کے گھر والوں نے اچھے خاصے جہیز کا مطالبہ کر دیا تھا، جس میں ریفریجریٹر اور ٹیلی وژن بھی شامل ہونا چاہیے تھے۔

شوکت خان کے بقول اس کا فرزانہ یاسمین کے ساتھ نکاح ایک مسجد میں ٹھیک اسی وقت ہو گیا تھا، جس کی اس جوڑے نے خواہش کی تھی۔ شوکت خان کے مطابق، ’ہم نے یہ پروگرام بھی بنایا تھا کہ ہماری شادی کی ایک بڑی تقریب نکاح کے دو روز بعد بھی منعقد کی جائے گی۔ مجھے قطعی علم نہیں کہ نکاح کے بعد یہ اسکینڈل کیوں کھڑا کیا گیا۔‘

Wochenrückblick KW 45 Deutschland Karneval Köln Heumarkt
جرمنی میں کارنیوال کے سیزن کا آغاز بھی ہر سال گیارہ نومبر کو ہوتا ہےتصویر: dapd

بہت سے بنگلہ دیشی شہری اس وجہ سے فرزانہ یاسمین کے فیصلے کی تعریف بھی کر رہے ہیں کہ اس نے جہیز کی بہت بڑا مالی بوجھ ثابت ہونے والی اور ’قابل مذمت‘ سماجی رسم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اب تک یاسمین کے ملکی میڈیا میں کئی انٹرویو شائع یا نشر ہو چکے ہیں۔

فرزانہ یاسمین کہتی ہیں، ’میں نے شوکت کو چھو‌ڑنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ میں ان بنگلہ دیشی لڑکیوں میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی، جو ہر سال شادی کے نام پر جہیز کی لعنت کا شکار ہو کر اپنی ساری زندگی اسی طرح گزار دیتی ہیں‘۔

شوکت اور فرزانہ بنگلہ دیش کے جنوب مغرب میں پتوآکھالی ضلع کے دیہی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ پولیس کے مقامی سربراہ بابل اختر نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ یہ شادی دلہا کی خالہ کی طرف سے جہیز کے مطالبے کے باعث ناکام ہوئی۔

بابل اختر کے بقول دلہن نے دلہا سے پوچھا تھا کہ آیا وہ جہیز کی رسم کا حامی ہے اور اس پر شوکت خان کا جواب ہاں میں تھا۔ اس کے برعکس خود شوکت خان کا دعویٰ ہے کہ وہ اتنا امیر ہے کہ اسے شادی کے لیے جہیز کا مطالبہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں