ہاتھ پکڑ کر چلنے والے جوڑوں کا پیچھا، سکیورٹی ڈائریکٹر برطرف
7 مارچ 2016جنوبی ایشیا کی اس جزیرہ ریاست کے دارالحکومت کولمبو سے پیر سات مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت والے اس قدامت پسند ملک میں ایک حکومتی وزیر نے بتائی۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ کولمبو حکومت نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کہ ایک سری لنکن جوڑے نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو پوسٹ کر دی تھی، جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ کس طرح شہر کے آزادی اسکوائر پر تعینات گارڈز وہاں آنے والے ایسے جوڑوں کا پیچھا کر رہے تھے، جنہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔
ساتھ ہی اس جوڑے نے سوشل میڈیا پر یہ بھی لکھ دیا تھا کہ موجودہ حکومت کی پالیسی اس گزشتہ حکومت کے مقابلے میں واضح طور پر مختلف ہے، جس کے دور میں پولیس سرعام بوس و کنار کرنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو گرفتار کر لیتی تھی۔
سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کی اشاعت کے بعد جب وسیع تر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو ملکی نائب وزیر خارجہ ہرشا ڈی سلوا آج پیر کے روز یہ کہنے پر مجبور ہو گئے، ’’میں نے کل (اتوار) کو کولمبو میں آزادی اسکوائر کا دورہ کیا، اور دیکھا کہ وہاں موجود محافظ غیر شادی شدہ جوڑوں کو وہاں سے نکال رہے تھے۔ اسی لیے مجھے مداخلت کرنا پڑی۔‘‘
نائب وزیر خارجہ ڈی سلوا نے کہا، ’’میں نے وزیر اعظم رانیل وکریما سنگھے سے بات کی تو انہوں نے فوری طور پر اس یادگار کی حدود میں سکیورٹی کے ذمے دار ڈائریکٹر کی فوری برطرفی کا حکم دے دیا۔‘‘ نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا، ’’ان گارڈز کا باس برطرف کر دیا گیا ہے۔ ان محافظوں کو اب کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا، امید ہے کہ اب وہ اپنا خود سری سے عبارت رویہ نہیں دہرائیں گے۔‘‘
جس سری لنکن جوڑے نے محافظوں کی طرف سے وہاں جانے والے مہمانوں کو ہراساں کیے جانے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کی، اس کا کہنا ہے کہ قومی یادگار کے گارڈز کا موقف یہ تھا کہ اس یادگار کی حدود میں صرف ’بال بچوں والے شادی شدہ جوڑے‘ ہی بیٹھ سکتے تھے۔ کولمبو میں یہ قومی یادگار 1948ء میں سری لنکا کی برطانیہ سے آزادی کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سری لنکا زیادہ تر ایک بدھ اکثریتی معاشرہ ہے، جہاں شادی شدہ شہریوں کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے محبت کے عوامی اظہار کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن کولمبو حکومت کا تازہ ترین اقدام اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس بارے میں موجودہ حکومت کا سرکاری رویہ سابق صدر مہیندا راجا پاکسے کی گزشتہ حکومت کی پالیسی کے مقابلے میں زیادہ نرمی سے عبارت ہے۔