1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہاشمی رفسنجانی مجلس خبرگان رہبری کے صدر نہ رہے

8 مارچ 2011

ایران کے سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی ماہرین کی اعلٰی کونسل ’مجلس خبرگان رہبری‘ کے صدر کے عہدے سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کی جگہ اب یہ ذمہ داری آیت اللہ مہدوی کانی کے کاندھوں پر آ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/10VBE
ہاشمی رفسنجانی 1989ء سے لے کر 1997ء تک ایران میں صدارت کے عہدے پر فائز رہےتصویر: AP

ایران میں 86 رکنی مجلس خبرگان کی صدارت اب آیت اللہ محمد رضا مہدوی کانی کے پاس آ گئی ہے۔ مہدوی کانی ہیں تو ایک اہم مذہبی رہنما تاہم سیاسی میدان میں ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف رفسنجانی کو اس عہدے سے ہٹانے کے لیے ہی کانی کو منتخب کیا گیا ہے۔ ایران میں اس مجلس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہی وہ ادارہ ہے، جو سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریوں کا جائزہ بھی لیتا ہے۔

Mohammed Reza Mahdavi-Kani
ایران میں مجلس خبرگان کے 86 ارکان ہیںتصویر: AP

ہاشمی رفسنجانی گزشتہ چار برسوں سے اس عہدے پر فائز تھے۔ ایران کے سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر محمود احمدی نژاد کی مخالفت کی وجہ سے انہیں اس عہدے سے فارغ ہونا پڑا ہے۔ سابق صدر رفسنجانی کو اس وجہ سے بھی مجلس خبرگان کی صدارت نہیں ملی کیونکہ کانی نے بھی اس عہدے کے لیے درخواست جمع کرائی تھی۔ مجلس کے 86 ارکان میں سے 63 نے ان کے حق میں ووٹ دیا۔ آیت اللہ مہدوی کانی کا شمار احمدی نژاد کے حامیوں میں ہوتا ہے۔

ایران میں ماہرین کی اعلیٰ کونسل کی سربراہی 1989ء سے آیت اللہ خامنائی کے پاس تھی۔ سیاسی طور پر ان کی کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی اپنے قیام کے بعد سے انہوں نے کوئی خاص اور اہم فیصلہ کیا ہے۔

ہاشمی رفسنجانی 1989ء سے لے کر 1997ء تک ایران میں صدارت کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے 2009ء میں احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح محمد خاتمی بھی ان افراد میں شامل ہیں، جنہوں نے انتخابی بےقاعدگیوں کی وجہ سے ایران کے گزشتہ صدارتی انتخاب کے نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ سابق وزیراعظم میر حسین موسوی اور سابق اسپیکر مہدی کروبی بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ اسی وجہ سے ان چاروں کو ایران میں اپوزیشن کے رہنما کہا جاتا ہے۔

Mohammed Reza Mahdavi-Kani
مہدوی کانی ہیں تو ایک اہم مذہبی رہنما تاہم سیاسی میدان میں ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہےتصویر: AP

کہانی صرف ہاشمی رفسنجانی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ احمدی نژاد سے مخالفت کا خمیازہ ان کے خاندان کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ان کا ایک بیٹا مہدی لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے جبکہ دوسرے محسن ہاشمی کو گزشتہ ہفتے ہی تہران میں ان کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کی بیٹی فائزہ کو بھی ان کے سیاسی نظریات اور حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی وجہ سے کئی مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انتخاب سے ایران کے حکومتی حلقوں میں سخت گیر موقف رکھنے والے افراد کی گرفت مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ اسے اعتدال پسندوں اور اصلاحات کے حامیوں کے لیے دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: امتیاز احمد