1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالینڈ میں حکومت سازی کی کوششیں

11 جون 2010

ہالینڈ کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد حکومت سازی کے لئے رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ ان انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوئی ، اس لئے یہ لازمی ہے کہ وہاں مخلوط حکومت عمل میں آئے گی۔

https://p.dw.com/p/Nnw0
کٹر نظریات کے حامل ڈچ سیاستدان گیئرت ولڈرزتصویر: picture-alliance/ dpa

تارکین وطن کو تسلیم کرنےکا معاملہ ہو یا روشن خیالی کی بات ہو ہالینڈ ہمیشہ ہی ان معاملات میں سرفہرست رہا ہے۔ یہ ملک تارکین وطن سے متعلق اپنی پالیسیوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور بات جب مسلم تارکین وطن کی ہوتواس معاملے میں بھی ہالینڈ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی نے یہ دیکھنا ہوکہ مختلف ثقافتیں کس طرح کامیاب طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتی ہیں تو اسے ایمسٹرڈیم کا رخ کرنا چاہیے۔

لیکن حالیہ پارلیمانی انتخابات نے ہالینڈ کی ایک نئی تصویر پیش کی ہے۔ اسلام مخالف رکن پارلیمان گیئرٹ ولڈرز کی فریڈم پارٹی کی مقبولیت میں زبردست اضافے اورانتخابات میں تیسری بڑی جماعت کے طور پرسامنے آنے کی وجہ سے ہالینڈ کی اس ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، جو روشن خیالی اور دوسروں کو برداشت کرنےکے حوالے سے قائم تھی۔

وزیراعظم ژان پیٹر بالکن اینڈے کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کے بعد اب ہالینڈ میں نئی حکومت کی تشکیل کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مخلوط حکومت کی تشکیل میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا اور یہ عمل کافی طویل بھی ہو سکتا ہے۔

Niederlande Wahlen Mark Rutte Volkspartei für Freiheit und Demokratie
دائیں بازو کی اعتدال پسند لبرل پارٹی کے رہنما ’مارک روٹے‘تصویر: AP

اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ تاہم اس بات کی امید زیادہ ہے کہ دائیں بازو کی اعتدال پسند لبرل پارٹی کے رہنما ’مارک روٹے‘ ہالینڈ کے نئے سربراہ حکومت ہوں گے۔ ان کی جماعت لبرل پارٹی کو31 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بائیں بازو کی اعتدال پسند لیبر پارٹی کو30 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اگرایسا ہوتا ہے تو ہالینڈ میں سو سالوں کے بعد کوئی لبرل رہنما سربراہ حکومت بنے گا۔

ہالینڈ میں ہونے والے انتخابات میں اصل کامیابی گیئرٹ ولڈرزکو ملی ہے۔ مسلمانوں سے دشمنی ان کی پہچان ہے اور اسی وجہ سے ان کے ووٹوں کی تعداد میں دوگنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اپنی 24 نشستوں کے ساتھ وہ تیسری بڑی قوت بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان انتخابات میں کسی بھی پارٹی کے ووٹوں کی تعداد میں اتنا اضافہ نہیں ہوا، جتنا کہ ولڈرزکو ہوا ہے۔ اپنی اس کامیابی پر ولڈرز کا کہنا تھا کہ ہالینڈ میں سب پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ وہ ایک اہم جماعت ہیں اور دی ہیگ میں حکومت ان کے بغیر بنانا مشکل ہے۔

اب مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ انتخابات سے قبل کوئی بھی جماعت گیئرٹ ولڈرز کو اپنے ساتھ ملانا نہیں چاہتی تھی۔ لیبر پارٹی کے’ کوہن‘ نے تو صاف لفظوں میں انکارکر دیا تھا، تاہم انتخابی نتائج سے نہ صرف نئی اکثریت سامنے آئی ہے بلکہ ہالینڈ میں بدلتا ہوا سیاسی رجحان بھی عیاں ہوا ہے۔

Ausländische Würdenträger vor dem Kongress
ہالینڈ کی ملکہ Beatrixتصویر: AP

اس صورتحال میں یہ ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم بالکن اینڈے ’فریڈم پارٹی‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے لبرل اور لیبر پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں۔ لیکن ان جماعتوں کے سیاسی ایجنڈے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر اعتدال پسند لبرل پارٹی چاہتی ہے کہ سماجی نظام میں تبدیلیاں لاتے ہوئے اخراجات میں کمی کی جائے جبکہ لیبر پارٹی اس کی سخت مخالف ہے۔

بہرحال اس پیچیدہ سیاسی صورتحال کو اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو وہ ہیں ملکہ Beatrix۔ وہ اپنے کسی قابل بھروسہ شخص کو تمام سیاسی جماعتوں کے پاس بھیج کر ممکنہ اتحاد کے بارے میں آگاہ کر وا سکتی ہیں۔ جب ان کا پیغام تمام سیاسی جماعتوں کے دروازے تک پہنچ جائے گا، تو نئے وزیراعظم کو وہ حکومت سازی کی دعوت دینگی۔ تاہم یہ وقت ابھی دور ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں