ہانگ کانگ کی دو منزلہ ٹرام، ایک عجوبہ
ہانگ کانگ کی سڑکوں پر یہ ٹرامیں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے رواں دواں ہیں اور سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ حال ہی میں ان ٹراموں پر شہر کے مرکزی حصے میں پابندی کی تجویز سامنے آئی تو اُس کی بہت مخالفت کی گئی۔
’ہَٹ کے، بچ کے، ڈِنگ ڈِنگ آ رہی ہے‘
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے 1904ء ہی میں ہانگ کانگ کے جزیرے پر اس طرح کی پہلی ٹرام کے لیے پٹری بچھا دی تھی۔ تب سے یہ دو منزلہ ٹرام اس شہر کی پہچان چلی آ رہی ہے۔ لوگ اسے عام طور پر ’ڈِنگ ڈِنگ‘ کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے پورے شہر کی سیر سیاحوں کے پروگرام میں ضرور شامل ہوتی ہے۔
نئے تقاضوں سے ہم آہنگی میں مشکلات
ٹریفک کے اژدہام کی وجہ سے ’ڈِنگ ڈِنگ‘ کی اوسط رفتار دَس کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہی پہنچ پاتی ہے حالانکہ موزوں حالات میں یہ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی سفر کر سکتی ہے۔ اب تک اس میں ایئر کنڈیشننگ کی بھی سہولت نہیں تھی۔ عنقریب ایئر کنڈیشنڈ ٹرام بھی سڑکوں پر آنے والی ہے۔
’ڈِنگ ڈِنگ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ہے‘
ایک مشاورتی کمپنی نے ہانگ کانگ کی حکومت کو مشورہ دیا کہ شہر کے مرکزی حصے میں اس ٹرام کے چلنے پر پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ اس کے لیے مختص پٹریاں سڑکوں کے رقبے کا تیس فیصد گھیر لیتی ہیں اور یہ کہ لوگ اِس کی بجائے زیر زمین ریلوے کے ذریعے سفر کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی تجاویز کو عام شہریوں نے پسند نہیں کیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے فروغ کی ضرورت
ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے ہانگ کانگ کی سِٹی پلانر سسیلیا لوئیزے چُو نے بتایا کہ شہر کے وسط میں کم سے کم کاروں کو آنے سے روکنے کا یہی طریقہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جہاں ایک کار میں زیادہ سے زیادہ سات لوگ بیٹھ سکتے ہیں، وہاں ’ڈِنگ ڈِنگ‘ میں 115 مسافر سفر کر سکتے ہیں۔
سفر کا سستا، قابل عمل اور انوکھا ذریعہ
ہانگ کانگ کے بہت کم شہری کار خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ کار پارکنگ کا مسئلہ الگ ہے۔ اس ٹرام کے ساتھ یکطرفہ سفر کے ٹکٹ کی قیمت محض 0.26 یورو کے برابر ہوتی ہے۔ پچھلی طرف سے لوگ اس پر چڑھتے ہیں اور اگلی طرف سے اترتے ہیں۔ ادائیگی اترتے وقت کرنا ہوتی ہے، سکّوں یا پھر چِپ کارڈ کے ذریعے۔ ایک دِن میں ایک لاکھ اَسّی ہزار مسافر ’ڈِنگ ڈِنگ‘ کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔
ٹرامیں ’گنہگار‘ نہیں بلکہ ’مظلوم‘ ہیں
ٹرام دوست حلقوں کا موقف یہ ہے کہ شہر کے مرکزی حصے میں ٹریفک غلط جگہوں پر کاریں پارک کرنے والوں کی وجہ سے بلاک ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کاریں ریل کی پٹری پر بھی چلائی جا سکتی ہیں۔ ہانگ کانگ میں اس طرح کی ٹراموں کی تعداد تقریباً ایک سو ہے جبکہ کاروں کی تقریباً چار لاکھ۔
مقامی روایات کے حق میں جدوجہد
دریں اثناء شہری انتظامیہ نے مشاورتی فرم کی تجویز سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے گو ابھی سرکاری طور پر اسے رَد نہیں کیا۔ ٹرام دوست حلقے جانتے ہیں کہ اُنہیں چوکس رہنا ہو گا ورنہ ’ترقی‘ کے نام پر اس طرح کی مقامی روایات کو قربان ہوتے دیر نہیں لگتی۔