1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہاں مجھے قبول ہے...

قرۃالعین زمان2 ستمبر 2008

بھارتی پلاننگ کمیشن اور اسلامی امور کی ماہر سعیدہ حمید نے لکھنو میں نکاح پڑھا کر ایک نئی تاریخ مرتب کی ہے۔

https://p.dw.com/p/F8lr
تصویر: Helen Seeney

اسلامی دنیا میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ جب کسی خاتون نے یہ فرائض انجام دیئے۔ سعیدہ حمید کا تعلق بھارتی دارلحکومت نئی دہلی سے ہے اور وہ دولہا دلہن کی خاص دعوت پر دہلی سے لکھنو آئیں۔چار خواتین اور ایک مرد گواہ کی موجودگی میں یہ نکاح انگریزی میں پڑھا گیا۔ دلہن نائش حسن کواپنی شادی پر ایک خاتون نکاح خواں کا خیال کیسے آیا ؟ اس کے جواب میں نائش کہتی ہیں: ’’تقریبا دس سال سے میں عورتوں کے حقوق پر کام کر رہی ہوں۔ ہماری تنظیم معاشرے میں خواتین کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ سوال اٹھا کہ شادی پر نکاح خواہ کون ہوگا تو میرے ذہن میں سعیدہ آپا کا نام ہی آیا۔ میں انہیں کافی عرصے سے جانتی ہوں اور انہیں دنیاوی اور دینی معاملوں کی سمجھ بوجھ ہے۔ وہ ایک اچھی انسان ہیں اور ہماری آئیڈیا شخصیت بھی ہیں اور اسلامی نکتہ نظر سے بھی یہ کچھ غلط نہ تھا۔ بس یہی وجہ بنی ان کو دعوت نامہ بھیجنے کی۔ اس کے علاوے تو ہم نے کچھ نہیں سوچا تھا کہ کوئی مسئلہ بنے گا۔ ‘‘

Prof Amina Wadud Konferenz Islam Power
پروفیسر آمنہ ودود نے دو ہزار پانچ ء میں امریکہ کے شہر نیویارک میں جمعے کی نماز کی امامت کروائی تھی۔تصویر: Nelly Ezzat


نائش حسن ایک سماجی تنظیم مسلم محلہ اندولن کی بانی ممبر ہیں اور دولہا عمران نعیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ نکاح میں شریک نور جہاں نے کہا کہ اسلام عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے لیکن معاشرہ اس کہ برخلاف فیصلے دیتا ہے۔’’ اکثر مذہبی معاملات میں عورت کا کوئی کردار نہیں ہے اسے مذہبی معاملات سے خارج کریا جاتا ہے ۔ صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عورت اذان نہیں دے سکتی وہ امامت نہیں کر سکتی۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم نےیہی جاننے کے لئیے اپنے مذہب کو پڑھا اور علم ہوا کہ یہ سب تو سماج کے بنائے ہوئے قوانین ہیں نہ کہ خدا کے طے کردہ۔ اور اس کو اگر ہم توڑتے ہیں تو کچھ برا نہیں کرتے۔‘‘لیکن خاتون کے نکاح پڑھوانے اور قاضی کے فرائض سر انجام دینے پر کچھ حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔ نائش کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔’’ ہم نے بھارت کے جانے مانے اسلامی سکالر اصغر علی انجینئر سے بات کی تھی ۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ خاتون کے نکاح پڑھانا جائز ہے اور اسلامی نکتہ نظر سے کچھ غلط نہیں ہے۔ میں نے کوئی غیر اسلامی قدا نہیں اٹھایا۔‘‘

تا ہم آل انڈیا مسلم وومن پرسنل بورڈ کی صدر شائستہ امبر کہتی ہیں: ’’یہ اچھاکام ہے اسلام میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔مسلمان خواتین اور غیر مسلم لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اسلام میں عورتوں پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہے۔مگر ہمارے معاشرے میں عالم دین، مفتی حضرات نکاح پڑھاتیں ہیں اور قاضی اور نکاح خواں کا کام آج تک مرد ہی کرتے آئے ہیں اور میرے خیال میں انہیں ہی یہ کام کرتے رہنا چاہیے۔‘‘

پروفیسراختر الواسیع، جامع ملیہ اسلامیہ دہلی میں شعبہ اسلامک سٹیڈیز سے منسلک ہیں۔ وہ اس ساری صورتحال کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’ اب تک جو بھی باتیں میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اس میں سعیدہ حمید کے نکاح پڑھانے پر صرف نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اسے غلط نہیں قرار دیا گیا۔ اسلام میں نکاح ایک عورت اور مرد کے درمیان معاہدے کا نام ہے۔ اس کے لئیے قاضی کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔‘‘

اتر پردیش، سے تعلق رکھنے والی نائش اپنی تنظیم کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کے حقوق کے لئے سر گرم عمل ہے۔ بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں تا ہم دو ہزارچھ کی سچر کمیشن رپورٹ کے مطابق بھارتی مسلمان بد حالی کا شکار ہیں۔ نائش اپنی تنظیم کے ذریعے بھارت میں موجود اسلامی قوانین میں تبدیلی لانے کی کوششیں بھی کر رہی ہیں۔