1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزاروں ‘افغان طالبان جنگجو‘ جرمنی میں پناہ کے متلاشی

شمشیر حیدر dpa
22 اپریل 2017

پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے افغان تارکین وطن میں سے ہزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں بطور جنگجو طالبان کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ جرمن ادارے اب تک ایسے ستر سے زائد مہاجرین کی تصدیق کر چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2bir1
Serbien Flüchtlingsunterkunft in Belgrad
تصویر: DW/D. Cupolo

موقر جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن سکیورٹی ایجنسیوں اور جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) کو ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے۔

اشپیگل کے مطابق سن 2015 میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد سے جرمنی میں پناہ کے متلاشی افغان شہریوں میں سے ہزاروں افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے بی اے ایم ایف کو انٹرویو دیتے وقت دعویٰ کیا کہ وہ ماضی میں افغانستان میں طالبان سے وابستہ جنگجو رہ چکے ہیں۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

اشپیگل نے بی اے ایم ایف کے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ پناہ کی درخواستوں کے بعد لیے جانے والے انٹرویوز میں ہزاروں افغان شہریوں نے بتایا کہ وہ یا تو افغان طالبان کے ساتھ رابطے میں رہ چکے ہیں، یا پھر اس شدت پسند گروہ کے ساتھ مل کر ’جہادی کارروائیوں‘ میں بطور جنگجو شریک رہے ہیں۔

جرمنی کا وفاقی دفتر استغاثہ پہلے ہی ایسے ستر سے زائد افراد کی نشاندہی اور تصدیق کر چکا ہے جو افغانستان میں طالبان کا حصہ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں جرمنی میں ایسے چھ افغان شہریوں سے تفتیش کی جا رہی ہے جو مبینہ طور پر طالبان کے جنگجو ہیں۔ آئندہ دنوں میں جرمن دارالحکومت برلن اور کوبلنز شہر کی عدالتوں میں دو افغان تارکین وطن کے خلاف مقدمہ بھی شروع کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب جرمن ادارے یہ جاننے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ہزاروں افغان مہاجرین خود ہی طالبان کا رکن ہونے کا دعویٰ کیوں کر رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ایسے دعوے کرنے والے واقعی ماضی میں طالبان کے جنگجو رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایسے دعوے کرنے کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ افغان تارکین وطن ایسا سوچتے ہوں کہ طالبان کا رکن ہونے کے دعوے کے بعد جرمنی میں ان کو سیاسی پناہ ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ عام طور پر طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے افراد کو افغان طالبان قتل کر دیتے ہیں۔ ممکنہ طور پر جرمنی سے ملک بدری سے بچنے کے لیے افغان مہاجرین ایسے دعوے کرتے ہیں۔

تاہم جرمن حکام کو ایسے ہزاروں کیسوں کی تفتیش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جرمن پراسیکیوٹر جنرل پیٹر فرانک نے رواں برس جنوری میں وفاقی ریاستوں کی انصاف کی وزارتوں کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ بڑی تعداد میں شدت پسند گروہوں سے مبینہ تعلقات کے دعووں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کے وسائل ناکافی ہیں۔

’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر